|
شام غریباں کے مصائب نہ جانے آج کی رات کونسی غربت (بے وطنی) کی بات کریں؟ کونسی مصیبت کا ذکر کریں اور کس پردیسی کی مصیبت بیان کریں۔ کیا اوراق میں تبدیل ہونے والے قرآن کی بات کریں ... حسین (ع) کے بدن کی بات جس کے ٹکڑے کئے گئے اور جسم مبارک کو پامال کیا گیا؛ لباس لٹ گیا اور جسم بے کفن گودال کربلا میں مٹی اور خون کے درمیان بے سر پڑا تھا ...؟ یا پھر عباس علمدار کی مصیبت کے لئے روئیں جس کے بدن پر نہ تو بازو تھے اور نہ ہی سر؟ کیا ہم علی اکبر کا سوگ منائیں جن کے پیغمبر جیسے چہرے کے گلگوں رخسار شامیوں کے نیزے پر حالت معراج میں تھے؟ یا پھر کربلا کے چھوٹے سپاہی شیرخوار تشنہ لب شش ماہہ علی اصغر کی بات کریں جو اب خاک کے جھولے میں ابدی نیند سورہا ہے؟ کیا اصحاب حسین (ع) کی شجاعت و شہادت اور اطاعت و بصیرت کی داستان بیان کریں جو نہایت مظلومیت کے عالم میں اپنے امام و پیشوا کی راہ میں اطاعت بلا سوال کا ثبوت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ہیں؟ یا پھر اطفال حسین (ع) کے مصائب بیان کریں جن پر یتیمی اور اسیری کے داغ ایک ساتھ وارد ہوئے ہیں؟ پردیس کی بات کریں یا مظلومیت کی؟ وفا کی یا عہد شکنی کی؟ پیاس کی یا آگ کی؟ عشق کی بات کریں یا زینب کی؟ کیا اچھا نام آیا زبانِ قلم پر: "زینب" ... جی ہاں! ہمیں زینب کے بارے میں ہی لکھنے دیں؛ کیونکہ کربلا اس کے بعد، زینب (س) کی ہے اور زینب کی مرہون منت ہے۔ ہمیں زینب کے بارے میں بولنے دیں، زینب کے دکھوں کے بارے میں، زینب کے حزن و غم کے بارے میں اور زینب اور زینب کے قصوں کے بارے میں ... کیا گذری زینب کے قلب مقدس پر...!؟ لیکن اب غم زینب کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ سیدہ کے کون سے غم کی بات کریں؟ ان بھائیوں کی شہادت کی بات کریں جو زینب صرف نصف روز کے دوران کھوگئیں؟ یا ان بھتیجوں کی بات کریں جو یکے بعد دیگر شامیوں کے مقابل میدان میں اترے اور یکے بعد دیگرے تیغ و تیر ستم کا نشانہ بن کر شہید ہوئے؟ یا پھر سیدہ کے بیٹوں کی بات کریں جو ان کی روتی آنکھوں کے سامنے یزیدی درندوں کی درندگی کا نشانہ بنے؟ اور ہاں! سیدہ زینب ام المصائب اسی لئے تو ہیں کہ بچپن سے ہی بڑے بڑے حوادث کا سامنا کرتی رہی ہیں؛ بچی ہی تھیں جب نانا رسول اللہ (ع) نے چہرہ خاک میں نہاں کیا؛ ابھی نانا کا غم بالکل تازہ تھا چھ مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ نانا کی امت نے ہی اجر رسالت کے الہی حکم کا حق ادا کرتے ہوئے والدہ ماجدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ع) کو نوجوانی میں ہی قتل کردیا اور نوجوانی کے ایام میں اپنے بابا امیرالمؤمنین (ع) کی شگافتہ جبین کی زیارت نصیب ہوئی اور پھر ریحانةالرسول بھائی حسن بن علی (ع) کے جگر کے ٹکڑے طشت کی زینت بنتے دیکھی یزید کے باپ کے بھیجے گئے زہر کے نتیجے میں... لیکن اس میں بھی شک نہیں ہے کہ جو دن کربلا میں گذرا کوئی روز بھی اس جیسا نہ تھا اور کوئی بھی داغ دل کو عاشورا کے داغ جیسا، زخمی نہ کرسکا ا... قصهی بی سر و سامانی من گوش کنید دوستان ، غصهی تنهایی من گوش کنید سنو قصہ میری بے سرو سامانی کا دوستو آل محمد ص(ص) کے! سنو قصہ میری تنہائی کا گر چه این قصه ی پر غصه به گفتن نتوان نه به گفتن نتوان ، بلکہ شنفتن نتوان گوکہ یہ غموں بھرا قصہ کہنے سے نہ کہا جاسکے کہنے سے اور نہ سننے سے نہ سمجھا جاسکے دختر دخت نبی ، «امِ مصائب» نامم کرده لبریز ز غم ، ساقیِ گردون جامم بیٹی ہوں بنت نبی (ص) کی، نام میرا ام المصائب ہے ساقی افلاک نے بھر دیا ہے جام غم میرا صبر ، بی تاب شد از صبر و شکیباییِ من ناتوان شد خِرَد از درک و توانایی من صبر بے چین ہوا میرے صبر و شکیبائی سے عقل عاجز آگئی میری قوت کے ادراک سے باغبانم من و یک سر شده غارت باغم چرخ بگذاشته بس داغ به روی داغم میں باغباں ہوں تا ہم سارا باغ میرا یکدم لٹ گیا ہے فلک بس میرے داغ پر داغ رکھتا گیا ہے نه که چون جد عزیزی چو پیمبر دادم پدر و مادر و فرزند و برادر دادم اس لئے کہ میں رسول اللہ محمد (ص) جیسا عزیز نانا کھوگئی باپ اور مان بیٹی اور بھائی قربان کرگئی پیشِ من ، در پسِ در ، مادرِ من آزردند ریسمان بسته به مسجد ، پدرم را بردند میرے سامنے میری ماں کو انھوں نے اذیت دی دروازے کے پیچھے ہاتھوں میں رسن ڈالے میرے باپ کے اور انہیں مسجد گھسیٹ کر لے گئے من هم اِستاده و این منظره را می دیدم مات و وحشت زده می دیدم و می لرزیدم میں کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی مبہوت تھی وحشت زدہ تھی دیکھ رہی تھی اور کانپ رہی تھی بود در سینه هنوز آتش داغ مادر کہ فلک زہر دگر ریخت مرا سوخت جگر ابھی ماں کی شہادت کا زخم بھی بھر نہ سکا تھا کہ فلک نے ایک بار پھر زہر انڈیل کر جگر کباب کیا میرا دیدم آن تاج سرم را کہ دو تا گشته سرش بسته خونِ سر او هاله به دورِ قمرش میں نے اپنے سر کا تاج (امیرالمؤمنین) دیکھا سر گویا دو سروں میں بدل گیا ہے سرکے گرد خون کا حلقہ تھا چاند کے گرد حلقہ نور جیسا بعد از آن بود دلم خوش که برادر دارم به سرم سایه ی دو سرو صنوبر دارم والد کی بعد مطمئن تھی کہ بھائی زندہ ہے میرے سر پر دو سرو صنوبر (حسن و حسین) کا سایہ ہے غافل از آنکھ غم و دردِ من آغاز شده به دلم تازه درِ غصه و غم باز شده غافل تھے کہ میرا غم و درد کا تو ابھی آغاز ہی ہوا ہے میرے قلب میں غم و اندوہ کا باب تازہ ہے کھل گیا ہے رفت از دست حسن گشت دلم خوش به حسین شد مرا روح و روان ، قوت دل ، نور دو عین حسن نکل گئے ہاتھ سے تو حسین کے لئے خوش تھی حسین ہی میری روح و جان قوت دل اور نور عین ہوئے بعد از آن واقعه ی کرب و بلا پیش آمد راه جانبازیِ در راه خدا پیش آمد اس کے بعد ہی کربلا کا واقعہ پیش آیا راہ خدا میں جانباز کا راستہ سامنے آگیا روز عاشور صبح سے ظہر تک صرف نصف روز میں سیدہ زینب (س) یزیدیوں کے ہاتھوں پانچ [اور ایک روایت کے مطابق چھ] بھائیوں، پانچ بھتیجوں، چار چچا زاد بھائیوں، اور تین بیٹوں [اور بروایتے دو بیٹوں] کے قتل کا مشاہدہ کیا؛ بہت عظیم غم ہے بہت ہی بھاری اور کسی خاتون ہی کے لئے نہیں بڑے بڑے دل والے مردوں کے لئے بھی ناقابل برداشت لیکن... لیکن شاید یہ سارے بھاری بھرکم غم داغ اسیری اور دربدری کے غم کے سامنے ناچیز تھے جس کا آغاز آج رات [گیارہوں کی رات] سے ہے ہوا۔ بہت چھوٹے تھے وہ غم اس غم کے سامنے... کیا کوئی مثال لا سکتا ہے دخت نبی و علی کی، تاریخ انسانیت میں!؟ روز طی گشت و نگویم که چه بر ما آمد شب جانکاه و غم افزا و محنزا آمد دن گذر گیا میں نہ کہوں کہ کیا گذری ہم پر رات آئی جان لیوا غم افزا اور مصیبتوں سے بھرپور آن زمان کو که بگویم چه بدیدم آن شب خارها بود که از پای کشیدم آن شب کہاں ہے وہ فرصت کہ میں بتاؤں کہ کیا دیکھا میں نے اس شب کتنے کانٹے تھے جو میں نے پیروں سے (بچوں کے) نکال لئے چه بگویم چه شبی را به سحر آوردم کوه غم شد دل و چون کوه به پای استادم کیا کہوں کہ کیسی رات تھی وہ جو میں صبح تک گذار گئی دل کوہ غم تھا اس رات اور میں پہاڑ کی طرح استقامت دکھا گئی شہادت سید الشہداء علیہ السلام کے ساتھ ہی جنگ ختم ہوئی؛ یزیدیوں نے سر امام حسین (ع) بدن سے جدا کیا تو دوسری یزیدی روایت پر عمل کا آغاز ہوا غارت اموال اور لوٹ کا کاروبار شروع ہوا؛ یزیدیوں نے حتی تن حسین (ع) پر سے پرانے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے، عمامہ، کرتا، لباس اور جوتے؛ "بحدل" نامی ملعون نے امام (ع) کی انگشتری اتارنے کی کوشش کی مگر ہاتھ زخمی تھے اور انگلیاں پھول گئی تھیں اور انگشتری اتارنا ممکن نہ تھا چنانچہ شقی یزیدی نے خنجر سے انگلیاں کاٹ ڈالیں اور انگشتری اتار کر لے گیا۔ گھوڑا امام حسین (ع) کا ـ ذوالجناح ـ خون آلود سر و بدن کے ساتھ خیموں کی جانب چلا جبکہ زین بھی الٹ گیا۔ سیدانیوں نے گھوڑے کی حالت دیکھ کر اپنی یتیمی اور بے کَسی کا یقین کرلیا اور گریہ و بکاء کی صدائیں بلند ہوئیں۔ امام (ع) کی ہمشیرہ سیدہ ام کلثوم (س) نے فریاد کرتے ہوئے کہا: یا علی! یا جعفر (طیار)! یا حسن (مجتبی)! کہاں ہو دیکھ لو کہ اسلام دشمن یزیدیوں نے محبوب رسول (ص) امام حسین (ع) کے ساتھ کیا سلوک کیا!؟ تیسری یزیدی روایت پر عملدرآمد کا آغاز ہوا۔ لشکر یزید نے خیموں پر حملہ کیا۔ ایک طرف سے یزیدی لشکر کے قرآن دشمن سپاہی خیموں کو آگ لگا رہے تھے اور دوسری جانب سے خیموں میں موجود اشیاء کو لوٹ رہے تھی۔ اسلام دشمنوں نے خواتین کا حجاب تک لوٹنا شروع کیا اور ان کی چادریں کھینچ لیں اور مقنعے چھین لئے۔ رسول اللہ (ص) کی بیٹیاں سر برہنہ زیر آسمان خائف و ہراسان خیموں سے نکل کر کھلے آسمان تلے بھاگ رہی تھیں ننگے پاؤں کانٹے صحرا کے کانٹوں کے بیچ۔ حرم رسول اللہ (ص) کی سیدانیاں جلتے خیموں سے دشت سوزان کی جانب نکلے تھیں جو بھاگتے بھاگتے قتلگاہ کی گودال تک پہنچیں اور سید و سالار احرار عالم کے بےسر و بدن کا سامنا ہوا۔ یہ در حقیقت انقلاب عاشور کی پیغام رسانی کا آغاز تھا جو بنت علی (ع) کے لئے فریضہ قرار پایا تھا فرض قرار دیا گیا تھا اور یہی سیدہ کے کربلا آنے کا فلسفہ بھی تھا۔ سیدہ نے بآواز بارگاہ الہی میں عرض کیا: بآواز بلند سب سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: "الهى تقبّل منّا هذا القربان" "خداوندا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما"۔ اس کے بعد بضع البتول نے گلہ کرتے ہوئے مدینة الرسول (ص) کی طرف رخ کرکے عرض کیا: " ایها الرسول" اے میرے نانا محمد (ص)! راوی کہتا ہے: اللہ کی قسم! میں وہ منظر ہرگز بھلا سکتا جب زینب بنت علی (ع) آہ و زاری اور بین کررہی تھیں اور نہایت سوز و گداز سے رسول اللہ (ص)! کو صدا دے رہی تھیں کہ: "يا محمداه! صلی عليك مليك السماء، یا محمدا! آسمان کے فرشتوں کا درود ہو آپ پر ہذا حسين مُرمل بالدما مقطع الاعضاء، اے محمد! یہ آپ کے حسین ہیں خون میں نہائے ہوئے، ٹکڑے ٹکڑے بدن کے ساتھ۔ و بناتك سبایا، و إلی اللھ المشتكی ..." اور یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جنہیں اسیر کرلیا گیا ہے اور ہماری شکایت اللہ سے ہے۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ نے عرض کیا: محمداه بناتک سبایا و ذرّیّتک مقتله، اے رسول خـدا (ص)! آپ کی بیٹیاں لشکر یزید کے ہاتھوں اسیر اور آپ کی ذریت پوری کی پوری مقتول ہوگئی۔ تسفى علیهم ریح الصبا، صبح کی ہوا ان کے بے کفن جسموں پر ریت اڑا رہی ہے۔ هذا حسین بالعـراء مـجزور الراس مـن القـفا مسلوب العمامة و الرداء، یہ آپ کے حسین ہیں جن کا سر پشت سے جدا کیا گیا اور ان کے عمامے، لباس اور رداء کو لوٹ کر لے گئے۔ اب اماں زہراء بنت رسول سلام اللہ علیہا سے خطاب کرنے کی باری تھی تو عرض کیا بقیع کی طرف رخ کرکے: ہوا کے پرندوں اور سمندر کی مچھلیوں کو کباب کرکے رکھ دیا کہ اے شکستہ دلوں کی مونس و انیس ہمارا حال دیکھ لینا ہمیں دیکھ لینا کہ غریب و بے یار و مددگار اور رشتہ داروں کو کھوئے ہوئے ہیں اے مادر! اے دختر خیر البشر! ایک نظر صحرائے کربلا کی جانب فرما اور اپنے فرزند کو دیکھ لینا جن کا سر دشمنوں کے نیزے کے نوک پر اور بدن خون میں نہایا ہوا ہے۔ یہ آپ کا جگر گوشہ ہے جو اس صحرا میں خاک پر پڑا ہے اور اپنی بیٹیوں کو دیکھ لینا جن کے سراپردوں کو دشمنوں نے جلا ڈالا ہے اور انہیں ننگے و بے محمل اونٹوں پر سوار کیا گیا کرکے اسیری کی حالت میں لے جارہے ہیں۔ ہم آپ کے فرزند ہیں جو وطن سے دور غربت میں گھرے ہوئے ہیں۔ تبلیغ عاشورا کوئی حضرت زینب سلام اللہ سے سیکھے اور شاید اسی روش کو دیکھ کر کسی نے کہا تھا کہ "جو شہید ہوئے وہ کار حسینی کر گئے اور جو زندہ بچے ہیں انہیں کار زینبی کرنا چاہئے ورنہ یزیدیوں میں شمار ہونگے۔ سیدہ نے اس بار کربلا کے شہید مظلوم امام حسین علیہ السلام سے مخاطب ہوئیں اور فرمایا: بابى من اضحى عـسکره یوم الاثنین نهبا، میرے باپ قربان ہوں اس پر جس کی سپاہ کو دشمنان دین دوشنبہ کے روز غارت کر گئے بابى من فسطاطه مقطّع العُرى، میرے باپ قربان ہوں اس پر جس کے خیمے کی طنابیں کاٹ لی گئیں اور خیمہ اس کا زمین پر بیٹھ گیا بابى من لا غائب فیرتجى و لا جریحٌ فیداوى، میرے باپ قربان ہوں اس پر جو نہ تو ایسے سفر پر نکلا ہے جس میں لوٹنے کی امید ہو اور نہ ہی ایسا زخم کھا گیا ہے جس کا علاج کیا جاسکے بابى مَن نفسى له الفدأ، میرے باپ قربان ہوں اس پر جس پر میری جان قربان ہے باءبى المهموم حتى قضى ، میرے باپ قربان ہوں اس پر جو اس دنیا سے غم و حزن لے کر اٹھ گیا باءبى العطشان حتى مضى ۔ میرے باپ فدا ہوں اس پر جو تشنہ لب اٹھا اس دنیا سے بابى من شیبته تقطر بالدمأ، میرے باپ فدا ہوں اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا بابى من جدّه رسول اله السمأ، میرے باپ فدا ہوں اس پر جس کے نانا آسمانوں کے پروردگار کے رسول ہیں بابى من هو سبط نبى الهدى، (۸)۔ میرے باپ قربان ہوں اس پر جو رسول ہدایت کے نواسے (سبط نبى الهدى ) ہیں حضرت زینب (س) نے اس کے بعد اصحاب رسول (ص) سے مخاطب ہوکر فرمایا: یا حُزناه! یا کرباه! الیوم مات جدّى رسول الله، یا اصحاب محمّداه! هؤلأ ذریّْ المصطفى یُساقون سوق السّبایا۔ کیا حزن ہے اور کیا کرب ہے! میرے نانا رسول اللہ (ص) دنیا سے اٹھ گئے ہیں اے اصحاب نبی (ص)! یہ ذریتِ رسول اللہ (ص) ہے جنہیں یہ لوگ اسیروں کی مانند لے جارہے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت زینب (س) نے اس قدر آہ و نالہ کیا اور اس قدر نوحہ سرائی کی کہ دوست و دشمن رونے لگے اور سیدہ نے صحرا کے حیوانات اور سمندری مچھلیوں کو بے چین کردیا۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت اکثر لوگوں نے دیکھا کہ گھوڑوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوئے یہاں تک کے ان کے سم بھیگ گئے۔ روایت میں ہے کہ سیدہ نے اپنا خطبہ جاری رکھتے ہوئے علي مرتضي، فاطمہ زہرا اور حمزہ سيدالشہداء کو پکارا اور یہ باتیں اس قدر دلگداز تھیں کہ یزید کے جلاد بھی آنسو بہانے لگے۔ اس کے بعد حضرت سکینہ (س) اپنے والد کے جسم بےسر سے لپٹ گئیں اور راز و نیاز کرنے لگیں۔ حتی کہ یزیدی کمانڈروں کے حکم پر بدو عربوں کا ایک گروہ آیا جس نے سیدانیوں کو امام حسین (ع) سے دور کردیا۔ یزیدی لشکر کے سپاہی لوٹ مار میں مصروف تھے اور اسی حال میں اس نیم جلے خیمے میں پہنچے جہاں امام سجاد علیہ السلام شدت بخار میں مبتلا پڑے تھے۔ کربلا کے شقی ترین شخص شمر بن ذی الجوشن نے تلوار بےنیام کرکے حملہ کرنا چاہا مگر اس کے ہمراہ دیگر شامیوں نے اعتراض کیا اور کہا: "تمہیں شرم نہیں آتی کہ اب اس بیمار نوجوان کو بھی قتل کرنا چاہتے ہیں؟" شمر بے حیا نے کہا: امیر (عبیداللہ بن مرجانہ) کا حکم ہے کہ "میں حسین (ع) کے تمام بیٹوں کو قتل کردوں"۔ لیکن دوسرے شامی و کوفی شدت سے رکاوٹ بن گئے حتی کہ شمر اپنے ارادے سے باز آیا۔ ... اور اللہ تعالی نے بیماری کی ڈھال دے کر اپنے ولی کی جان کی حفاظت فرمائی۔ اس کے بعد رذیل دشمن نے اپنی رذالت، کمینہ پن اور پستی کی انتہا کردی؛ عمر سعد نے اپنی سپاہ میں چلّا کر اعلان کیا: "کون ہے جو شہداء کی لاشوں پر گھوڑے دوڑا کر انہیں پامال کردے؟" 10 اشقیاء نے آمادگی کا اعلان کیا جو راویان تاریخ اور محدثین کے اعتراف کے مطابق سب کے سب حرامزادے تھے۔ ان افراد نے اس عظیم بےشرمی اور اس بےمثل جرم کو سیاہ اموی تاریخ کے صفحات پر ثبت کردیا۔ ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے حتی کہ امام (ع) کے سینے کی ہڈیاں ٹوٹ کر نرم ہوگئیں... اے قلم! تو کیونکر یہ جملے لکھ رہا ہے اور مصیبت کی شدت سے سوکھ کیوں نہیں رہا!؟ اے ہاتھ! تو کیونکر یہ سب لکھتا ہے اور نہیں ٹوٹ رہا؟ ... میرے قارئین! زینب کبری کے حال کا تصور کریں ذرا ... ایک طرف سے ان عظیم اور پے در پے مصائب کی شاہد ہیں دوسری جانب سے اپنے شہید بھائی کے بیمار فرزند کی تیمار دار ہیں ، ایک طرف سے خود بھی اسیر ہیں اور ایک طرف سے صحرا میں منتشر بچوں اور خواتین کو اکٹھا کرکے جلے ہوئے خیموں کی طرف لانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئی ہیں... صحرائے کربلا تاریک سے تاریک تر ہورہا تھا اور بھوکے یزیدی بھیڑیئے ابھی باقی ماندہ بالیوں اور زیورات کی لالچ میں رسول اللہ (ص) کی بچیوں کا تعاقب کررہے تھے ... اے بنت رسول (ص)! اے بنت علی (ع)! اے بنت فاطمہ (س)! کیا گذری آپ پر تاریخ کی ان سیاہ ترین راتوں میں ... الا لعنة الله علی القوم الظالمين ؛ و سيعلم الذين ظلموا أي منقلب ينقلبون .................. منابع اصلی: 1۔ سيد بن طاووس ؛ اللہوف في قتلي الطفوف ؛ قم: منشورات الرضي، 1364۔ 2۔ شيخ عباس قمي ؛ نفس المہموم ؛ ترجمہ و تحقيق علامہ ابوالحسن شعراني ؛ قم: انتشارات ذويالقربي، 1378۔ 3۔ شيخ صدوق ؛ أمـالـي ؛ ترجمہي آية اللہ کمرہاي؛ تہران: انتشارات کتابچي، 1370۔ 4۔ اشعار فارسی، زبان حال کے زمرے میں آتے ہیں جن کی کوئی سندیت نہیں ہے (منبع: جزوہ آموزشي آداب مرثيہخواني با عنوان طنين عشق ؛ تہيہ و تنظيم مرتضی وافي ؛ قم: انتشارات شفق، 1380)۔ مقتل الحسین عبدالرزاق مقرم و دیگر مقاتل و کتب مصائب |