بخش یازدهم-عُمَر و حضرت امام حسين

امام حسين عليه السلام در دل، اندوهي فراوان و غمي جانکاه داشت از آن که جايگاه پدرش را غصب نموده بود و اين امر، عنصري از عناصر ناخرسندي و دل آزردگي براي آن حضرت به وجود آورد و با آگاهي تمام، احساس تلخکامي مي نمود در حالي که در سن و سال آغازين خود بود.



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/2/14ساعت 10:23  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

امام حسین علیہ السلام کے فضائل مترجم: افتخار علی جعفری امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب شیخ صدوق نے کتاب " امالی" میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے ان کا کہنا ہے : میں امام صادق (ع) کے پاس تھا کہ ایک طوس کا رہنے والا آدمی گھر میں داخل ہوا اور امام سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے اسے کیا ثواب ملے گا؟۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خدا وند عالم 
ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/2/9ساعت 17:3  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

قرآن اور حسین

اگر قرآن سید الکلام ہے (١)تو امام حسین سید الشہداء ہیں(٢)

ہم قرآن کے سلسلے میں پڑھتے ہیں، ”میزان القسط”(٣) تو امام حسین فرماتے ہیں،”امرت بالقسط”(٤)



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/1/4ساعت 12:18  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

امام حسین (ع)

حدیث (1) امام صادق عليه‏السلام:

اَلبَرَكَةُ مِن قَبرِ الحُسَينِ بنِ عَلىٍّ عليه‏السلام عَشَرَةُ اَميالٍ؛
تا ده ميل اطراف قبر حسين بن على عليه‏السلام بركت است.

بحارالأنوار، ج 101، ص116، ح 41



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/1/3ساعت 19:47  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

زیارت امام حسین(ع(
صادره از ناحیه مقدس امام زمان)عج(
معروف به زیارت ناحیه مقدسه








أَلسَّلامُ عَلى ادَمَ صِفْوَةِ اللهِ مِنْ خَلیقَتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى شَیْث وَلِىِّ اللهِ وَ خِیَرَتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى إِدْریسَ الْقــآئِمِ للهِِ بِحُـجَّتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى نُوح الْمُجابِ فی دَعْوَتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى هُود الْمَمْدُودِ مِنَ اللهِ بِمَعُونَتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى صالِـح الَّذی تَـوَّجَهُ اللهُ بِکَرامَتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى إِبْراهیمَ الَّذی حَباهُ اللهُ بِخُلَّتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى إِسْمعیلَ الَّذی فَداهُ اللهُ بِذِبْــح عَظیم مِنْ جَنَّتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى إِسْحقَ الَّذی جَعَلَ اللهُ النُّبُوَّةَ فی ذُرِّیَّتِهِ ، أَلسَّـلامُ عَلى یَعْقُوبَ الَّذی رَدَّ اللهُ عَلَیْهِ بَصَرَهُ بِرَحْمَتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى یُوسُفَ الَّذی نَجّاهُ اللهُ مِنَ الْجُبِّ بِعَظَمَتِهِ ، أَلسَّلامُ عَلى مُوسَى الَّذی فَلَقَ اللهُ الْبَحْرَ لَهُ بِقُدْرَتِهِ


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/12/15ساعت 9:25  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

دوست دارم بار دیگر عاشقی از سر بگیرم

جام می بار دگر از ساقی کوثر بگیرم

دوست دارم از نجف تا کربلا با چشم گریان

 «یا حسین» گویم،جوابش از علی اکبر بگیرم


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/12/14ساعت 17:29  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
زیارت امام حسین علیہ السلام کی فضیلت


محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ھے:
مُرُوا شِیعَتَنَا بِزیَارَةِ قَبْر الْحُسَیْنِ بْنِ عَلیٍّ علیہ السلام، فَاِنَّ اِتیَانَہُ مُفْتَرَضٌ عَلَی کُلِّ مُوٴْمِنٍ یُقِرُّ لِلحُسَیْنِ بِالاِمَامَةِ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔(۱)
ھمارے شیعوں کو زیارت قبر حسین علیہ السلام کی طرف حکم دو کیونکہ آپ کی زیارت ھر اس مومن پر واجب ھے جو خدا کی طرف سے آپ کی امامت کا اقرار کرتا ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا
مَنْ زَارَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ لِلّٰہِ وَفی اللّٰہِ، اٴعْتَقَہْ اللّٰہ مِنَ النّٰارِ، وَآمَنَہُ یَوْمَ الْفَزَعِ الاٴکبَرِ، وَلَمْ یَسئَلِ اللّٰہَ حَاجَةً مِن حَوَائِجِ الدُّنیاَ وَالآخِرَةِ اِلاّ اٴعطاَہُ۔(2)
جو شخص امام حسین علیہ السلام کی خوشنودی خدا کے لئے اور فی سبیل الله زیارت کرے تو خداوندعالم اس کو آتش جھنم سے نجات عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس کو امان دے گا، اور خداوندعالم سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب نھیں کرے گا مگر یہ کہ خداوندعالم اس کی حاجت پوری کردے گا“۔


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/11/4ساعت 13:29  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا مختصر خاکہ


           

امام حسین علیہ السلام کی سیرت طیبہ

                                                                                             ترجمہ:علی وحید ساجدی

حسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام آئمہ اہلبیت (ع) کی تیسری کڑی ، رسول خدا(ص) کے دوسرے نواسے اور جوانان جنت کے سردار اور پنجتن پاک کی پانچویں فرد ہیں۔آپ کو سید الشھداء کہا جاتا ہے آپ کی والدہ دختر رسول اسلام (ص) ہیں۔


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 20:49  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

مقدمہ اس سے پہلے کہ اصلی گفتگو میں وارد ہوں اور شخصیت امام حسین (ع) کے بارے میں کچھ لکھیں اپنے فہم و ادراک کے مطابق سید الشہداء امام حسین (ع) کی معرفت کے سلسلے میں کچھ باتیں مقدمہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:
ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 20:48  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
امام حسین (ع) کے چند زرین اقوال حدیث -۱- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” یا اعرابی نحن قوم لا نعطی المعروف الا علی قدر المعرفة “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں :” ہم اہل بیت بخشش نہیں کرتے مگر لوگوں کی معرفت کے مطابق“۔ حدیث -۲- قال الامام الحسین علیہ السلام : ” ان اجود الناس من اعطی من لا یرجوہ “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں: ” سب سے بڑا سخی وہ انسان ہے جو کسی ایسے کو عطا کرے جس سے کسی قسم کی توقع نہ ہو “ حدیث -۳- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” ان اعفیٰ الناس من عفا عن قدرة “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں :” سب سے بڑا عفو کرنے والا انسان وہ ہے جو قدرت ہونے کے باوجود معاف کر دے “ ۔ حدیث -۴- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” ان اوصل الناس من وصل من قطعہ “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں : ” سب سے زیادہ صلہٴ رحم کرنے والا انسان وہ ہے جو قطع رحم کرنے والوں سے تعلقات قائم کرے “ ۔ حدیث -۵- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” من نفس کربة مومن فرج اللہ عنہ کرب الدنیا و الاخرة “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں: ” جو کسی مومن کے کرب و غم کو دور کرے ،خدا اسکے دنیا و آخرت کے غم و اندوہ کو دور کرے گا “۔ حدیث -۶- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” موت فی عز خیر من حیات فی ذل “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں : ” ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کہیں بہتر ہے “ ۔ حدیث -۷- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” ان حوائج الناس الیکم من نعم اللہ علیکم فلا تملوا النعم فتحور نقما “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں : ” خدا کی نعمتوں میں سے ایک، لوگوں کو تمھارے پاس حاجت کے لئے آنا ہے پس اس نعمت پر حزن و ملال محسوس نہ کرو ورنہ یہ نعمت ، نقمت میں تبدیل ہو جائیگی “۔ حدیث -۸- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” ایھا الناس من جاد ساد ، و من بخل رذل “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں : ” لوگو! جود و سخاوت کرنے والا سردارقرار پاتا ہے ، اور بخل کرنے والا ذلیل و رسوا ہوتا ہے “۔ حدیث -۹- قال الامام الحسین علیہ السلام: ”ان المومن لا یسئی و لا یعتذر والمنافق کل یوم یسئی و یعتذر “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں: ” مومن نہ برائی کرتا ہے نہ ہی عذر پیش کرتا ہے جب کہ منافق ہر روز برائی کرتا ہے اور ہر روز عذر خواہی کرتا ہے “ ۔ حدیث -۱۰- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” من احبک نھاک و من ابغضک اغراک “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں: ”دوست وہ ہے جو تمہیں برائی سے بچائے دشمن وہ ہے جو تمہیں برائیوں کی ترغیب دلائے “۔ حدیث -۱۱- قال الامام الحسین علیہ السلام: ” انی لا اری الموت الا سعادہ ولا الحیاة مع الظالمیں الابرما “ ترجمہ: حضرت امام حسین (ع) علیہ السلام فرماتے ہیں : ” میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتہ زندگی کو لائق ملامت سمجہتا ہوں “
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 20:46  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

امام حسين کي حيا ت طيبہ کا اجمالي جا ئزہ

 

امام حسين کي زندگي کے تين دور

سب سے پہلے مرحلے پر يہ سمجھنا چاہيے کہ يہ واقعہ کتنا عظيم ہے تاکہ اِس کہ علل و اسباب کو تلاش کيا جائے۔ کوئي يہ نہ کہے کہ واقعہ کربلا ميں صرف قتل ہوا ہے اور چند افراد قتل کرديے گئے ہيں۔ جيسا کہ ہم سب زيارت عاشورا ميں پڑھتے ہيں کہ ’’لَقَد عَظُمَتِ الرَّزِيَّۃُ وَ جَلَّت وَ عَظُمَتِ المُصِيبَۃُ ‘‘۔ يہ مصائب و مشکلات بہت بڑي تھيں۔ ’’رزيّۃ‘‘ يعني بہت عظيم حادثہ؛ يہ حادثہ اور واقعہ بہت عظيم اور کمر توڑ دينے والا اور اپني نوعيت کا بے نظير واقعہ ہے ۔ لہٰذا اِس واقعہ کي عظمت و بزرگي کا اندازہ لگانے کيلئے ميں سيد الشہدا کي حيات طيبہ سے تين ادوار کو اجمالي طور پر آپ کے سامنے بيان کرتا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائيے کہ سيد الشہدا کي حيات کے اِن تين ادوار کا مطالعہ کرنے والا شخص اِن تينوں زمانوں ميں ايک ايسي شخصيت کو سامنے پاتا ہے کہ جس کيلئے يہ گمان بھي نہيں کيا جاسکتا ہے کہ نوبت يہاں تک جا پہنچے گي کہ اِس شخصيت کے جدّ کي امت کے کچھ افراد روز عاشورا اُس کا محاصرہ کرليں اور اُسے اور اُس کے اصحاب و اہل بيت کا نہايت سفاکانہ اور دردناک طريقے سے قتل عام کريں اور خواتين کو اسير و قيدي بناليں!
اِن تينوں زمانوں ميں سے ايک دور پيغمبر اکرم
(ص) کي حيات کا زمانہ ہے ، دوسرا زمانہ آپٴ کي جواني يعني رسول اکرم (ص) کے وصال کے بعد پچيس سال اور امير المومنين کي حکومت تک کا زمانہ ہے جبکہ تيسرا زمانہ امير المومنين کي شہادت کے بعد بيس سال کے عرصے پر محيط ہے۔

دورِ طفوليت

پيغمبر اکرم (ص) کي حيات ِ طيبہ کے اِس نوراني دور ميں امام حسين حضرت ختمي مرتبت (ص) کے نور چشم تھے۔ پيغمبر اکرم (ص) کي ايک صاحبزادي تھيں بنام فاطمہ (س) کہ اُس زمانے کے تمام مسلمان جانتے تھے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے اُن کے بارے ميں فرمايا کہ ’’اِنَّ اللّٰہَ لِيَغضِبَ لِغَضَبِ فَاطِمَۃ وَ يَرضيٰ لِرِضَاھَا‘‘ ١ ، ’’اگر کسي نے فاطمہ کو غضبناک کيا تو اُس نے غضب خدا کو دعوت دي ہے اور اگر کسي نے فاطمہ کو خوش کيا تو اُس نے خدا کو خوشنود کيا‘‘۔ توجہ فرمائيے کہ يہ صاحبزادي کتني عظيم المرتبت ہے کہ حضرت ختمي مرتبت (ص) مجمع عام ميں اور کثير تعداد کے سامنے اپني بيٹي کے بارے ميں اِس طرح گفتگو فرماتے ہيں؛ يہ کوئي عام بات نہيں ہے۔
پيغمبر اکرم
(ص) نے اپني اِس بيٹي کا ہاتھ اسلامي معاشرے کے اُس فرد کے ہاتھ ميں ديا کہ جو عظمت و بلندي اور اپني شجاعت و کارناموں کي وجہ سے بہت بلند درجے پر فائز تھا، يعني علي ابن ابي طالب ۔ يہ جوان، شجاع ، شريف، سب سے زيادہ با ايمان، مسلمانوں ميں سب سے زيادہ شاندار ماضي کاحامل، سب سے زيادہ شجاع اور تمام نبرد و ميدان عمل ميں آگے آگے تھا ۔ يہ وہ ہستي ہے کہ اسلام جس کي شمشير کا مرہونِ منت ہے، يہ جوان ہر اُس جگہ آگے آگے نظر آتا ہے کہ جہاں سب (بڑے بڑے سورما اور دلير)پيچھے رہ جاتے ہيں، اپنے مضبوط ہاتھوں سے گھتّيوں کو سلجھاتا ہے اور راستے ميں آنے والي ہر رکاوٹ کوتہس نہس کرديتا ہے؛ يہ وہ عزيز ترين اور محبوب ترين داماد ہے کہ جسے خدا کے آخري رسول (ص) نے اپني بيٹي دي ہے ۔ اُس کي يہ محبوبيت رشتہ داري اور اقربا پروري اور اِسي جيسے ديگر امور کي وجہ سے نہيں ہے بلکہ اُس شخصيت کي عظمت کي وجہ سے ہے۔ اِس عظيم جوان اور اِس عظيم المرتبت بيٹي سے ايک ايسا بچہ جنم ليتا ہے کہ جو حسين ابن علي کہلاتاہے۔
البتہ يہي تمام باتيں اور عظمتيں امام حسن کے بارے ميں بھي ہيں ليکن ابھي ہماري بحث صرف سيد الشہدا کے بارے ميں ہے۔ حسين ابن علي ،پيغمبر اکرم
(ص) کے نزديک لوگوں ميں سب سے زيادہ عزيزہیں۔ حضرت ختمي مرتبت (ص) جو دنيائے اسلام کے سربراہ ، اسلامي معاشرے کے حاکم اور تمام مسلمانوں کے محبوب رسول اور قائد ہيں، اِس بچے کو اپني آغوش ميں ليتے ہيں اور اُسے اپنے ساتھ مسجد ميں لے جاتے ہيں۔ سب ہي يہ بات اچھي طرح جانتے ہيں کہ يہ بچہ ، تمام مسلمانوں کي محبوب ترين ہستي کے دل کا چين، آنکھوں کا نور اور اُس کا محبوب ہے۔ رسول اکرم (ص) ، منبر پر خطبہ دينے ميں مصروف ہيں، اِس بچے کا پير کسي چيز سے الجھتا ہے اور زمين پر گر جاتا ہے ، پيغمبر اکرم (ص) منبر سے نيچے تشريف لاتے ہيں، اُسے اپني گود ميں اٹھا کر پيار اور نوازش کرتے ہيں؛ يہ ہے اِس بچے کي اہميت و حقيقت!
پيغمبر اکرم
(ص)نے چھ سات سال کے امام حسن اور امام حسين کے متعلق فرمايا کہ ’’سَيِّدي شَبَابِ اَھلِ الجَنَّۃِ ‘‘ ۲ يہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہيں ۔ (يا رسول اللہ!) يہ تو ابھي بچے ہيں، ابھي تو سن بلوغ کو
بھي نہيں پہنچے اور انہوں نے جواني کي دہليزميں ابھي تک قدم نہيں رکھا ہے؛ ليکن رسول اکرم
(ص) فرماتے ہيں کہ يہ جوانان جنت کے سردار ہيں يعني يہ بچے چھ سات سال ميں بھي ايک جوان کي مانند ہيں، يہ سمجھتے ہيں، ادراک رکھتے ہيں ،عملي اقدام کرتے ہيں اور شرافت و عظمت اِن کے وجود ميں موجزن ہے۔ اگر اُسي زمانے ميں کوئي يہ کہتا کہ يہ بچہ، اِسي پيغمبر کي اُمت کے ہاتھوں بغير کسي جرم و خطا کے قتل کرديا جائے گا تو اُس معاشرے کا کوئي بھي شخص اِس بات کو ہرگز تسليم نہيں کرتا۔ جيسا کہ پيغمبر (ص) نے يہ فرمايا اور گريہ کيا تو سب افراد نے تعجب کيا کہ کيا ايسا بھي ہوسکتا ہے؟!

 

امام حسين کا دورانِ جواني

دوسرا دور پيغمبر اکرم (ص) کي وفات کے بعد سے امير المومنين کي شہادت تک کا پچيس سالہ دور ہے۔ اِس ميں يہ شخصيت، جوان، رشيد، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں ميں آگے آگے ہے، عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں ميں حصہ ليتا ہے اور اسلامي معاشرے کے تمام مسلمان اِس کي عظمت وبزرگي سے واقف ہيں۔ جب بھي کسي جواد و سخي کا نام آتا ہے تو سب کي نگاہيں اِسي پر متمرکز ہوتي ہيں، مکہ ومدينے کے مسلمانوں ميں، ہر فضيلت ميں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، يہ ہستي خورشيد کي مانند جگمگا رہي ہے، سب ہي اُس کا احترام کرتے ہيں، خلفائے راشدين بھي امام حسن اور امام حسين کا احترام کرتے ہيں ، اِن دونوں کي عظمت و بزرگي کے قولاً و عملاً قائل ہيں، ان دونوں کے نام نہايت احترام اور عظمت سے ليے جاتے ہيں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظير جوان اور سب کے نزديک قابل احترام۔ اگر اُنہي ايام ميں کوئي يہ کہتا کہ يہي جوان (کہ جس کي آج تم اتني تعظيم کررہے ہو) کل اِسي امت کے ہاتھوں قتل کيا جائے گا تو شايد کوئي يقين نہ کرتا۔

امام حسين کا دورانِ غربت

سيد الشہدا کي حيات کا تيسرا دور، امير المومنين کي شہادت کے بعد کا دور ہے، يعني اہل بيت کي غربت و تنہائي کا دور۔ امير المومنين کي شہادت کے بعد امام حسن اور امام حسين مدينے تشريف لے آئے۔حضرت علي کي شہادت کے بعد امام حسين بيس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام  رہے اور آپ تمام مسلمانوں ميں ايک بزرگ مفتي کي حيثيت سے سب کيلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلام ميں داخل ہو نے والوںکي توجہ کا مرکز، اُن کي تعليم وتر بيت کا محور اوراہل بيت سے اظہا رعقيدت و محبت رکھنے والے معنوي امام اس لحاظ سے کہ امير المومنين کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئي اور آپ کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسين کو منتقل ہوئي۔ امام حسن کي امامت کا زمانہ يا امام حسين کي اپني امامت کا دور، دونوں زمانوں ميں امام حسين ٢٠ سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام رہے ۔ (مترجم)
افراد کے توسل و تمسک کے نقطہ ارتکاز کي حيثيت سے مدينے ميں زندگي بسر کرتے رہے ۔ آپ ، محبوب، بزرگ،شريف، نجيب اور عالم وآگاہ شخصيت کے مالک تھے۔
آپ نے معاويہ کو خط لکھا، امام حسين اگر کسي بھي حاکم کو تنبيہ کي غرض سے خط تحرير فرماتے تو عالم اسلام کے نزديک اُس کي سزا موت تھي، معاويہ پو رے احترام کے ساتھ يہ خط وصول کرتاہے، اُسے پڑھتا ہے ، تحمل کرتا ہے اور کچھ نہيں کہتا۔ اگر اُسي زمانے ميں کوئي يہ کہتا کہ آئندہ چند سالوں ميں يہ محترم ، شريف اور نجيب و عزيزشخصيت کو کہ جو تمام مسلمانوں کي نگاہوں ميں اسلام وقرآن کي جيتي جاگتي تصوير ہے، اسلام و قرآن کے اِنہي ماننے والوں کے ہاتھوں قتل کرديا جائے گا اور وہ بھي اُس دردناک طريقے سے کہ جس کا کوئي تصور بھي نہيں کرسکتا تھا تو کوئي بھي اِس بات پر يقين نہيں کرتا۔ ليکن اپني نوعيت کا عجيب و غريب ، حيرت انگيز اور يہي ناقابل يقين واقعہ رونما ہوا اور کن افراد کے ہاتھوں وقوع پذير ہوا؟ وہي لوگ جو اُس کي خدمت ميں دوڑ دوڑ کر آتے تھے، سلام کرتے تھے اور اپنے خلوص کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اِن (متضاد) باتوں کا کيا مطلب ہے؟ اِ س کا مطلب يہ ہے کہ اسلامي معاشرہ اِن پچاس سالوں ميں معنويت اور اسلام کي حقيقت سے بالکل خالي ہوگياتھا، يہ معاشرہ صرف نام کا اسلامي تھا ليکن باطن بالکل خالي اور پوچ اور يہي خطرے کي سب سے بڑي بات ہے۔ نمازيں ہورہي ہيں، نماز باجماعت ميں لوگوں کي کثير تعداد موجود ہے، لوگوں نے اپنے اوپرمسلماني کا ليبل لگايا ہوا ہے اور کچھ لوگ تو اہل بيت کے طرفدار اور حمايتي بھي بنے ہوئے ہيں !!

رسول اللہ (ص)کے اہل بيت تمام عالم اسلام ميں قابل احترام ہيں

ميں آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ پورے عالم اسلام ميں سب ہي اہل بيت کو قبول کرتے ہيں اور کسي کو اِس ميں کسي بھي قسم کا شک وشبہ نہيں ہے ۔ اہل بيت کي محبت تمام عالم اسلام کے دلوں ميں موجود ہے اور آج بھي يہي صورتحال ہے۔ آج بھي آپ دنيائے اسلام کے کسي بھي حصے ميں جائيے، آپ ديکھيں گے کہ سب اہل بيت سے محبت کرتے ہيں۔ وہ مسجد جو امام حسين سے منسوب ہے اور وہ مسجد جو قاہرہ ميں حضرت زينب (س) سے منسوب ہے ، ہميشہ زوّاروں سے پُر رہتي ہے۔ لوگ بڑي تعداد ميں يہاں آتے ہيں ، قبر کي زيارت کرتے ہيں اور توسل کرتے ہيں۔
ابھي دو تين سال قبل ايک نئي کتاب مجھے دي گئي ؛ چونکہ قديمي کتابوں ميں يہ مطالب بہت زيادہ ہيں، يہ کتاب’’ اہل بيت کون ہيں‘‘؟کے عنوان سے لکھي گئي ہے۔ سعودي عرب کے ايک محقق نے تحقيق کرکے اِس کتاب ميں ثابت کيا ہے کہ اہل بيت سے مراد علي ، فاطمہ (س)اور حسن و حسين ہيں۔ يہ حقيقت تو ہم شيعوں کي جان روح کا حصہ ہے ليکن ہمارے اِس سني مسلمان بھائي نے اس حقيقت کو لکھا اور طبع کيا ہے۔ يہ کتاب ميرے پاس موجود ہے اور اِس کے ہزاروں نسخے چھپ ہو کر فروخت ہوچکے ہيں۔
                                                      ماخوذ از کتاب امام حسین دلربائے قلوب

                                                                        آیت اللہ خامنہ ای
-------

١ بحار الانوار ، جلد ٤٣ صفحہ ٤٤

۲ بحار الانوار ، جلد١٠، صفحہ ٣٥٣

+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 20:42  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

اگر قرآن سید الکلام ہے (١)تو امام حسین سید الشہداء ہیں(٢) ہم قرآن کے سلسلے میں پڑھتے ہیں، ''میزان القسط''(٣)تو امام حسین فرماتے ہیں،''امرت بالقسط''(٤)اگر قرآن پروردگار عالم کا موعظہ ہے،''موعظة من ربکم''(٥)تو امام حسین نے روز عاشورا فرمایا''لا تعجلوا حتیٰ اعظکم بالحق''(٦
ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 20:41  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

 

انسانی نجات کی کشتی کو کسی سمندر کی ضرورت نہیں، وہ امام حسین علیہ السلام کی یاد میں بہائے گئے آنسووں کے قطروں پر حرکت کرے گی، وہ اشک جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتے ہیں وہ دل و جان کو پاک کر کے خداوند عالم کے حضور پہنچ جاتے ہیں۔ 
انسانی تاریخ میں ایسے واقعات کی تعداد شاید انگلیوں پر گنی جا سکے جسکے بارے میں ہر مکتب، مسلک، مذھب اور دین کے دانشوروں نے اپنے اپنے انداز فکر کے مطابق لکھا ہو، ان گنے چنے واقعات میں


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 20:39  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

بخش هجدهم-امام حسين در مكه

ا

 



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/17ساعت 10:54  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

بخش ششم-عنايت پيامبر به امام حسين


پيامبر صلي الله عليه و آله در جان نوزادش، بزرگواريها و مکرمتهايش را فرو ريخت تامثالي از او و ادامه اي براي زندگيش باشد و در نشر اهداف و حمايت از اصولش نماينده او گردد.

 

تعويذ پيامبر براي حسنين



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/17ساعت 10:11  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

بخش اول-پدر و مادر امام حسین

مادر :

 وي آن نهال پاک است از سيده نساء العالمين فاطمه زهرا عليها السلام که خداوند اورا به فضل خويش طاهر گردانيد و او را قرار داد تا از ضلالت، هدايت کند و از تفرقه، به جمع باز آورد... او فاطمه زهراست که اخگري از روح پدر و فيضي از نور او دارد و شعاعهايي از هدايتش که وي محل عنايت و توجه او بود و با هاله اي از بزرگداشت و تقدير دربرش گرفت و دوستيش را بر مسلمين فرض کرد تا جزئي از عقيده و دينشان باشد در حالي که فضيلت و جايگاه عظيمش را در اسلام گسترده ساخت تا الگويي براي زنان امتش باشد.



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/16ساعت 18:30  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

 تربت حضرت سيد الشّهداء بر اساس روايات موثّق آثار فراوانى دارد، از آن جمله :
1 - طبق روايات رسيده سجده كردن بر تربت حضرت حسين عليه السلام موجب قبولى نماز است ، كه امام صادق عليه السلام مى فرمايد:
السُّجُودُ عَلى تُربَة الحُسين عليه السلام يَخرِقُ الحُجبُ السَّبعة .



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/15ساعت 22:52  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

در روايت اهل سنت و شيعه مستندا نقل شده است كه امّ سلمه همسر پيامبر (ص ) مى گويد:



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/15ساعت 22:47  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

در طول تاريخ انسانهايى بوده و هستند كه پس از مرگشان ، زندگى و حياتشان ادامه پيدا كرده و با مرگ بدنشان ، وجودشان و شخصيت و انديشه‏شان ادامه يافته است . مردان خدا و شخصيتهاى الهى، . 

 



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/15ساعت 21:13  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

براى زيارت‏ هيچ امامى، به اندازه زيارت حسين بن على(ع) در ( كربلا ) تاكيد نشده است.


  

ازانبوه روايات گوناگون، به چند نمونه اشاره مى‏كنيم:



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/15ساعت 20:39  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  |