اربعین، چرا فقط امام حسین(ع)؟ چاپ

Image

اربعین یعنی گذشت چهل روز از مصیبت جانگداز شهادت سرور و سالار شهیدان.. چرا فقط برای امام حسین علیه ‏السلام روز اربعین تعیین شده و برای امامان دیگر و حتی پیامبر اكرم صلی ‏اللَّه‏ علیه ‏و آله، مراسم روز اربعین نداریم؟

 

برای توضیح جواب این سؤال، به این مطالب توجه كنید:

1) فداكاری‏های امام حسین علیه‏السلام، دین را زنده كرد و نقش او در زنده نگه داشتن دین اسلام، ویژه و حائز اهمیت است. این فداكاری‏ها را باید زنده نگه داشت؛ چون زنده نگه داشتن دین اسلام است. گرامی‏داشت روز عاشورا و اربعین، در حقیقت زنده نگه داشتن دین اسلام و مبارزه با دشمنان دین است.




ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/1/3ساعت 19:24  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

اربعین حسینی

 

  اربعین آمد و اشکم  زبصر میاید

                                        گوئیا زینب محزون زسفر میاید

بازدرکرب وبلا شیون وشینی برپاست      

                                          کزاسیران  ره  شام خبر میاید

 

 نعزی مولانا صاحب العصر والزمان عجل الله تعالى فرجه الشریف والمؤمنین الکرام بمناسبة ذکرى اربعینیة الإمام الحسین علیه السلام.  

 

 

ونحن نعزی الاربعین لکل شیعة سید الشهداء علیه السلام


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/1/3ساعت 19:13  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

قال الحسین(ع)! من اتانا لم یعدم خصله من اربع! آیه محکمه ، و قضیه عادله ، و اخا مستفادا، و مجالسه العلماء.  امام حسین(ع) فرمود: هر کس به نزد ما آید چهار خصلت را از دست نمی دهد، (و حداقل از چهار چیز بهره مند می گردد)

۱-نشانه های محکم و استوار می شنود ۲-از قضاوتی عادلانه برخوردار می گردد ۳-با برادری سودمند و پرفایده روبه رو خواهد شد ۴-اجر و پاداش مصاحبت و هم نشینی با علما و دانشمندان را خواهد برد.(۱)
۱- کشف الغمه، ج۲، ص ۸۰۲

+ نوشته شده در  2011/12/15ساعت 10:17  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

امام صادق(ع) می‌فرماید «مروان بن حکم» وارد مدینه شد و بر تختی تکیه زد و رو به یکی از دوستان امام حسین(ع) که آنجا بود نمود و گفت «رُدَّوا إلیَ اللهِ مَوْلیهُمُ الْحَقُّ ألا لهُ الْحُکْمُ وَ هُوُ أَسرَعُ الحاسِبِیْنَ» یعنی، اینها را دوستان امام را نزد خدایی که مولای حقیقی آنهاست، برگردانید و او سریعترین محاسبه کننده هاست امام حسین(ع) از آن شخص پرسید «مروان هنگامیکه داخل مدینه شد، چه گفت؟ او جریان را خدمت امام(ع) عرض کرد امام (ع) فرمود «آری! به خدا قسم! من و یارانم به بهشت بازگردانده می‌شویم و او و یارانش به آتش جهنم برگردانده می‌شوند»

بحارالانوار ج ۴۴ ص ۲۰۶


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/12/15ساعت 9:49  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

واقعہ کربلاکاآغاز



حضرت امام حسین علیہ السلام جب پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات سے لے کرامام حسن (ع) کی حیات کے آخری ایام تک بحرمصائب وآلام کے ساحل سے کھیلتے ہوئے زندگی کے اس عہدمیں داخل ہوئے جس کے بعدآپ کے علاوہ پنجتن میں کوئی باقی نہ رہاتو آپ کا سفینہ حیات خود گرداب مصائب میں آگیاامام حسن (ع) کی شھادت کے بعدسے معاویہ کی تمام ترجدوجہدیہی رہی کہ کسی طرح امام حسین (ع) کاچراغ زندگی بھی اسی طرح گل کردے، جس طرح حضرت علی(ع) اورامام حسن (ع) کی شمع حیات بجھاچکاہے اوراس کے لیے وہ ہرقسم کاداؤں کرتارہااوراس کامقصدصرف یہ تھاکہ یزیدکی خلافت کے منصوبہ کوپروان چڑھائے ،بالآخراس نے   ۵۶ ھ میں ایک ہزارکی جمیعت سمیت یزیدکے لیے بیعت لینے کی غرض سے حجازکاسفراختیارکیا اور مدینہ منورہ پہنچا۔

وھاں امام حسین (ع) سے ملاقات ہوئی اس نے بیعت یزیدکاذکرکیا،آپ نے صاف لفظوں میں اس کی بدکرداری کاحوالہ دے کرانکارکردیا،معاویہ کوآپ کاانکار کھلاتوبہت زیادہ لیکن چندالٹے سیدھے الفاظ کہنے کے سوااورکچھ کرنہ سکا اس کے بعدمدینہ اورپھرمکہ میں بیعت یزید لے کرشام کوواپس چلاگیا۔ علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ امیرمعاویہ نے جب مدینہ میں بیعت کاسوال اٹھایاتوحسین بن علی، عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیرنے بیعت یزید سے انکارکردیا اس نے بڑی کوشش کی لیکن یہ لوگ نہ مانے اوررفع فتنہ کے لیے امام حسین (ع) کے علاوہ سب مدینہ سے چلے گئے ۔

معاویہ ان کے پیچہے مکہ پہنچااوروہاں ان پردباؤڈالا لیکن کامیاب نہ ہوا،آخرکار شام واپس چلاگیا (روضة الشہداء ص ۲۳۴) ۔

معاویہ بڑی تیزکی ساتہ بیعت لیتارہا اوربقول علامہ ابن قتیبہ اس سلسلہ میں اس نے ٹکوں میں لوگوں کے دین بھی خریدلیے، الغرض رجب ۶۰ ھ میں معاویہ رخت سفر باندھ کر دنیاسے چلاگیا،یزیدجواپنے باپ کے مشن کوکامیاب کرناضروری سمجہتاتھا سب سے پہلے مدینہ کی طرف متوجہ ہوگیا اوراس نے وہاں کے والی ولیدبن عقبہ کولکھا کہ امام حسین (ع) ،عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیرسے میری بیعت لے لے ،اوراگریہ انکارکریں توان کے سرکاٹ کرمیرے پاس بھیج دے ،ابن عقبہ نے مروان سے مشورہ کیااس نے کھاکہ سب بیعت کرلیں گے لیکن امام حسین (ع) ہرگزبیعت نہ کریں گے اورتجھے ان کے ساتھ پوری سختی کابرتاؤ کرناپڑے گا۔

صاحب تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ولیدنے ایک شخص (عبدالرحمن بن عمربن عثمان) کوامام حسین (ع) اورابن زبیرکوبلانے کے لیے بھیجا، قاصد جس وقت پہنچادونوں مسجدمیں محوگفتگوتھے آپ نے ارشادفرمایاکہ تم چلوہم آتے ہیں، قاصدواپس چلاگیااوریہ دونوں آپ سے بلانے کے سبب تبادلہ خیالات کرنے لگے امام حسین (ع) نے فرمایاکہ میں نے آج ایک خواب دیکھاہے جس سے میں یہ سمجہتاہوںکہ معاویہ نے انتقال کیااوریہ ہمیں بیعت یزیدکے لیے بلارہاہے ابھی یہ حضرات جانے نہ پائے تھے کہ قاصدپھرآگیا اوراس نے کہاکہ ولیدآپ حضرات کے انتظارمیں ہے امام حسین (ع) نے فرمایاکہ جلدی کیاہے جاکرکہہ دوکہ ہم تھوڑی دیرمیں آجائیں گے ۔

اس کے بعدامام حسین (ع) دولت سرامیں تشریف لائے اور ۳۰ بہادروں کوہمراہ لے کرولیدسے ملنے کاقصد فرمایا آپ داخل دربارہوگئے اوربہادران بنی ھاشم بیرون خانہ درباری حالات کامطالعہ کرتے رہے ولیدنے امام حسین (ع) کی مکمل تعظیم کی اورخبرمرگ معاویہ سنانے کے بعدبیعت کاذکرکیا ،آپ نے فرمایاکہ مسئلہ سوچ بچارکاہے تم لوگوں کوجمع کرواورمجھے بھی بلالومیں ”علی روس الاشھاد“ یعنی عام مجمع میں اظھارخیال کروں گا۔

ولیدنے کھابہترہے ،پھرکل تشریف لائیے گا ابھی آپ جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ مروان بول اٹھا اے ولیداگرحسین اس وقت تیرے قبضہ سے نکل گئے توپھرہاتھ نہ آئیں گے ان کواسی وقت مجبورکردے اورابھی ابھی بیعت لے لے اوراگریہ انکارکریں توحکم یزیدکے مطابق سرتن سے اتارلے یہ سننا تھا کہ امام حسین (ع) کوجلال آگیاآپ نے فرمایا”یابن الزرقا“ کس میں دم ہے کہ حسین کوہاتہ لگاسکے، تجھے نہیں معلوم کہ ہم آل محمد ہیں فرشتے ہمارے گہروں میں آتے رہتے ہیں ہمیں کیونکر مجبورکیاجاسکتاہے کہ ہم یزید جیسے فاسق وفاجراورشرابی کی بیعت کرلیں، امام حسین (ع) کی آوازکابلند ہونا تھاکہ بہادران بنی ہاشم داخل دربار ہوگئے اورقریب تھاکہ زبردست ہنگامہ برپاکردیں لیکن امام حسین (ع) نے انہیں سمجھابجھاکرخاموش کردیا اس کے بعدامام حسین (ع) واپس بیت الشرف اتشریف لے گئے ولیدنے ساراواقعہ یزیدکولکھ کربھیج دیااس نے جواب میں لکھاکہ اس خط کے جواب میں امام حسین (ع) کاسربھیج دو،ولیدنے یزید کاخط امام حسین (ع) کے پاس بھیج کر کھلابھیجا کہ فرزندرسول ،میں یزید کے کہنے پرکسی صورت سے عمل نہیں کرسکتا لیکن آپ کو باخبرکرتا ہوں اوربتانا چاہتاہوں کہ یزیدآپ کے خون بہانے کے درپے ہے_

امام حسین (ع) نے صبرکے ساتہ حالات پرغورکیااورناناکے روضہ پرجاکردرددل بیان فرمایااوربے انتہاروئے ،صبح صادق کے قریب مکان واپس آئے دوسری رات کوپھرروضہ رسول پرتشریف لے گئے اورمناجات کے بعد روتے روتے سوگئے خواب میں آنحضرت کودیکھاکہ آپ حسین کی پیشانی کابوسہ لے رہے ہیں اورفرمارہے ہیں کہ اے نورنظرعنقریب امت تمہیں شہیدکردے گی بیٹاتم بھوکے پیاسے ہوگے تم فریادکرتے ہوگے اورکوئی تمھاری فریادرسی نہ کرے گا امام حسین (ع) کی آنکھ کھل گئی آپ بیت الشرف واپس تشریف لائے اوراپنے اعزاء کوجمع کرکے فرمانے لگے کہ اب اس کے سواکوئی چارہ کارنہیں ہے کہ میں مدینہ کوچھوڑدوں ،ترک وطن کافیصلہ کرنے کے بعدروضہ امام حسن (ع) اورمزارجناب سیدہ (س)پرتشریف لے گئے بھائی سے رخصت ہوئے ماں کوسلام کیاقبرسے جواب سلام آیا، ناناکے روضہ پررخصت آخری کے لیے تشریف لے گئے روتے روتے سوگئے سرورکائنات(ص) نے خواب میں صبرکی تلقین کی اورفرمایا بیٹاہم تمھارے انتظارمیں ہیں۔

+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:50  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

امام حسین (ع) کی نبردآزمائی

معاہدہ کے مطابق آپ سے لڑنے کے لیے شام کا ایک ایک شخص آنے لگا اورآپ اسے فناکے گھاٹ اتارنے لگے سب سے پہلے جوشخص مقابلہ کے لیے نکلاوہ ثمیم ابن قحطبہ تھا آپ نے اس پربرق خاطف کی طرف حملہ کیا اوراسے تباہ وبربادکرڈالا،یہ سلسلہ جنگ تہوڑی دیرجاری رہا اورمدت قلیل میں کشتوں کے کشتے لگ گئے


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 22:12  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
       
حضرت امام حسین (ع) میدان جنگ میں

جب آپ کے بہتراصحاب وانصاراوربنی ہاشم قربان گاہ اسلام پرچڑھ چکے توآپ خوداپنی قربانی پیش کرنے لیے میدان کارزارمیں آپہنچے ،لشکر یزیدجوہزاروں کی تعدادمیں تھا،اصحاب باوفااوربہادران بنی ہاشم کے ہاتہوں واصل جہنم ہوچکاتھا امام حسین (ع) جب میدان میں پہنچے تودشمنوں کے لشکرمیں تیس ہزارسواروپیادے باقی تہے 

ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 22:1  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

یداللہ ابن زیادکاخط امام حسین (ع) کے نام

علامہ ابن طلحہ شافعی لکہتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلاپہنچنے کے بعدحرنے ابن زیادکوآپ کی رسیدگی کربلاکی خبردی اس نے امام حسین (ع) کوفوراایک خط ارسال کیاجس میں لکھاکہ مجہے یزیدنے حکم دیاہے


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:59  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
امام حسین (ع) کاخط اہل کوفہ کے نام

کربلاپہنچنے کے بعدآپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کے لیے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسہرکے ذریعہ سے ایک نامہ ارسال فرمایا ،جس میں آپ نے تحریرفرمایا کہ تمھاری دعوت پرمیں کربلاتک آگیاہوں،الخ۔ قیس خط لیے جارہے تہے کہ راستے میں گرفتارکرلیے گئے اورانہیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکرپیش کردیاگیا،ابن زیادنے خط مانگا قیس نے بروایتے چاک کرکے پہینک دیا اوربروایتے خط کوکھالیا ابن زیادنے انہیں بضرب تازیانہ شہیدکردیا(روضة الشہداء ص
۳۰۱ ،کشف الغمہ ص ۶۶)
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:57  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

امام حسین (ع) کی مکہ سے روانگی

الغرض امام حسین (ع) اپنے جملہ اعزاء واقرباء اورانصارجان نثار کوہمراہ لے کرجن کی تعدادبقول امام شبلنجی
۸۲ تھی مکہ سے روانہ ہوگئے آپ جس وقت منزل صفاح پرپہنچے توفرزدق شاعرسے ملاقات ہوئی وہ کوفہ سے آرہاتھا استفساربراس نے بتایاکہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہوں 

ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:54  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

خانہ کعبہ بھی جائے امن نہ بن سکا

یہ واقعہ ہے کہ امام حسین (ع) مدینہ منورہ سے اس لیے عازم مکہ ہوئے تھے کہ یہاں ان کی جان بچ جائے گی لیکن آپ کی جان لینے پرایسا سفاک دشمن تلا ہوا تھا جس نے مکہ معظمہ اورکعبہ محترمہ میں بھی آپ کو محفوظ نہ رہنے دیا اوروہ وقت آگیا کہ امام حسین (ع) مقام امن کومحل خوف سمجھ کر مکہ معظمہ چھوڑنے پرمجبور ہو گئے اور
قریب تھاکہ آپ کوعالم حج و طواف میں قتل کردیں۔



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:53  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
مدینہ سے روانگی

علماء کابیان ہے کہ امام حسین (ع)
۲۸/ رجب۶0  ھ یوم سہ شنبہ کومدینہ منورہ سے باارادہ مکہ معظمہ روانہ ہوئے علامہ ابن حجرکاکہناہے کہ ”نفرلمکتہ خوفا علی نفسہ“ امام حسین (ع) جان کے خوف سے مکہ تشریف لے گئے (صواعق محرقہ ص ۴۷) ۔



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:52  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

از جمله زيارات شريفه، زيارت ناحيه مقدسه است که منسوب به حضرت مهدي آل محمد (عج) مي باشد. يکي از فقرات زيارت مزبور، اين جمله است:

«وَ لَئِن اَخَّرتَنِي الدُّهُور وَ عَاقَنِي عَن نَصرِکَ المَقدُور لاُ ندِبَنَّّ عَلَيکَ صَباحَاً وَ مَساءَاً وَ لَاَبکَينَّ عَلَيکَ بَدَّلَ الدُّمُوعِ دَمَاً»

 

 


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/23ساعت 23:41  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

بخش نوزدهم-انتخاب هجرت به عراق

امام حسين عليه السلام هجرت به عراق را انتخاب کرد نه جاي ديگري از سرزمينهاي جهان اسلام، در حالي که مي دانست اهل عراق به چه وضعي از پادرهوايي و اضطراب در رفتار، گرفتار شده بودند. شايد انتخاب عراق- نه هر جاي ديگر- از سوي امام، به عوامل زير برگردد:
اوّل: عراق، در آن روزگار، قلب دولت اسلامي و جايگاه ثروت و مردان بود که در آن، کوفه به عنوان پادگاني براي سپاهيان اسلام تأسيس گرديد






ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/17ساعت 10:56  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  |