حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر عظیم الشان خطبہ

«بسم الله الرّحمن الرّحیم»

«اَلحَمدُ لِلّهِ الَّذی شَرَّفَ هذا (اشاره به بیت الله‌الحَرام) بِقُدُومِ اَبیهِ، مَن کانَ بِالاَمسِ بیتاً اَصبَح قِبلَةً. أَیُّهَا الکَفَرةُ الفَجَرة اَتَصُدُّونَ طَریقَ البَیتِ لِاِمامِ البَرَرَة؟

ترجمہ

آپ علیہ السلام نے یہ خطبہ امام حسین علیہ السلام کی ۸ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری کو مکہ سے کربلا روانگی کے موقع پر خانہ کعبہ کی چھت پر جلوہ افروز ہو کر ارشاد فرمایا

ALI WAHEED


  


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/5/15ساعت 23:40  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
 

بر فراز حرم حضرت ابوالفضل(ع) گنبدی است به قطر 12 متر و با شکلی متمایز از دیگر گنبدها. گنبدی نیم کروی با نوک تیز و ساقه‌ای نسبتا بلند است و از آن، پنجره‌هایی با قوس‌های کمان ابرویی و نوک تیز به بیرون گشوده می‌شود.



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/5/14ساعت 10:6  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

مشخصات حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام  


اسم : عباس بن على بن ابى طالب علیه السلام
کنیه : ابوالفضل
لقب : قمر بنى هاشم ، باب الحوائج ، طیار، اطلس ، سقا و غیره
تولد: 4 شعبان سال 26 هجرى در مدینه طیبه (اقوال دیگر نیز در تاریخ آمده است )
شهادت : محرم الحرام سال 61 هجرى ، در کربلاى معلى ، کنار نهر علقمه
پدر: امیرالمؤ منین على بن ابى طالب علیه السلام ، مولود کعبه ، شهید محراب و مظلوم تاریخ
مادر: فاطمه کلابیه ، معروف به ام البنین سلام الله علیه
عمر مبارک : 35 سال
سمت در کربلا: پرچمدار و فرمانده ارتش سیدالشهداء امام حسین علیه السلام و سقاى تشنه لبان
خلیفه غاصب زمان به هنگام شهادت : یزیدبن معاویه لعنة الله علیه
قاتل : حکیم بن طفیل سنبسى
از مجموع کتب انساب و تاریخ بر مى آید که حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام ، بر حسب زمان تولد، پنجمین پسر حضرت امیر المؤ منین على علیه السلام بوده است :

1



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/5/14ساعت 10:3  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

عظمت حضرت اباالفضل بر هیچ کس پوشیده نیست اما این روایت به گونه ای از بزرگی این شه زاده در ذهن مجسم می کند که همه ما را به این وجود مقدس  متمایل میکند و عشق او را در دل ما می اندازد:
در رستاخیز اکبر، حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله به جناب امیرالمؤمنین می گویند:



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/5/14ساعت 10:0  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 


 

کنیه‏هاى حضرت عباس علیه السلام

در فرهنگ عربى به آن دسته از نام‏هایى که با پیشوند اَبْ (در مردان) و اُمّ (در زنان) همراه باشد، کنیه مى‏گویند. سنتِ گذاشتن نامى در قالب کنیه براى افراد در میان قبایل عرب، گونه‏اى بزرگداشت و تجلیل نسبت به فرد به شمار مى‏آید.(1)

در اسلام نیز توجه زیادى به آن شده است غزالى مى‏نویسد: «رسول خدا صلی الله علیه و آله اصحاب خود را از روى احترام براى به دست آوردن دل‏هایشان به کنیه صدا مى‏زند و آنهایى که کنیه نداشتند، کنیه‏اى برایشان انتخاب مى‏فرمود و سپس آنها را بدان مى‏خواند. مردم نیز از آن پس، فرد مذکور را به همان کنیه مى‏خواندند. حتى آنان که فرزندى نداشتند تا کنیه‏اى داشته باشند برایشان کنیه‏اى مى‏نهاد. پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله رسم داشت حتى براى کودکان نیز کنیه انتخاب مى‏نمود و آنان را مثلاً ابا فلان صدا مى‏زد تا دل کودکان را نیز به دست آورد.»(2) در اینجا کنیه‏هاى حضرت عباس علیه السلام بر شمرده مى‏شود:

1.شماره 285، حجة‏الاسلام ابوالفضل هادى منش


ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2012/5/14ساعت 9:57  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 
مقدمہ ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلال میں اپنی مثال آپ ہے۔جو ایمان اور اخلاص ،استحکام اور استقلال میں لاجواب ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی شرافت اور بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو اطاعت،وفاداری ،جانثاری اور فداکاری کا درس دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔ اگرچہ اس کی فداکاری ، جانثاری اور وفاداری کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن تاریخ عباس بن علی (ع) کے خلعت کمالات کو میلا نہیں کر پائی۔ آج عباس کا نام عباس نہیں وفا ہے، ایثار ہے، اطاعت ہے، تسلیم ہے۔ عاشوار وہ باعظمت دن ہے جس میں انسانیت کے گرویدہ انسانوں نے اپنے قوی اور مستحکم ارادوں کو دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ تاریخ، کربلا والوں کی فداکاری پر ناز کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ زمانے والے ان کے کردار سےانقلاب برپا کرتے ہیں۔ کربلا ایسی دانشگاہ ہے جس کے فارغ التحصیل افراد ایمان، اخلاص، مجاہدت، فداکاری اور وفاداری جیسے مضامین میں عملی طور پر ڈاکٹریٹ کر کے گئے ہیں اور عباس اس دانشگاہ کے جانے پہچانے استاد ہیں۔ آج بھی یہ یونیورسٹی کھلی ہوئی ہے اور طلبہ کا داخلہ کر رہی ہے اس درسگاہ کا ایک سبجکٹ وفا اور علمبرداری ہے جس کے استاد حضرت عباس ہیں کہ جو اپنے بریدہ ہاتھوں سے انسان کو وفا سے عشق و محبت کا درس دیتے ہیں۔ ہم ایمان اور یقین کے چشمہ زلال تک پہنچنے کے لیے راہنمائی کے محتاج ہیں۔ ہماری روح تشنہ ہدایت ہے ہمارے دل مشتاق کمال ہیں۔ اولیاء الٰہی منتظر ہیں کہ ہم ان کی طرف رجوع کریں اور اس چشمہ ہدایت کے آب زلال سے اپنی روح کو سیراب کریں۔ حضرت عباس [ع] بھی ان اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے مشعل فروزاں ہیں اور ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق ہیں وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ عمل اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں مطیع، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں عبادتگذار اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی عالم و فاضل ہیں۔ ذیل میں حضرت عباس کی زندگی کا ایک گوشہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ آپ کے چاہنے والے اپنی زندگی کو کسی حد تک آپ کی زندگی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں اور راہ حق پر چلنے کے لیے آپ کو نمونہ عمل قرار دیں۔ ولادت حضرت عباس(ع) دس سال حضرت زہراء (س) کی شہادت کو گزر چکے تھے۔ حضرت علی(ع) نے فاطمہ(س) دختر پیغمبر(ص) کی شہادت کے بعد دس سال تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی اور ہمیشہ ان کے فراق میں مغموم تھے۔ خاندان پیغمبر کے لیے حیرت انگیز مقام تھا اس لیے کہ اس خاندان کے بزرگ بغیر زوجہ کے زندگی بسر کر رہے تھے۔ بالاخر ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے اور قبیلوں کی اخلاقی خصیوصیات اور ان کے مختلف خصائل سے آشنا تھے۔ اور ان سے کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کریں جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین (ع) کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھاجس کے آباؤ و اجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین کے نام سے شہرت پاگئی۔ جناب عقیل رشتہ کے لیے اس کے باپ کے پاس گئے اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ حضرت علی (ع) نے اس خاتون کے ساتھ شادی کی۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد جب امیر المومنین (ع) کے گھر میں آئیں امام حسن اور حسین (ع) بیمار تھے۔ اس نے ان کی خدمت اور دیکھ بھال کرنا شروع کر دی۔ کہتے ہیں کہ جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی تمہارے لیے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔ امام علی (ع) کے ساتھ شادی کے بعد اسے اللہ نے چار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان۔ جو چاروں کے چاروں بعد میں کربلا میں شہید ہو گئے۔ عباس کہ جن کی خوبیوں اور فضیلتوں کے بارے میں یہاں پر گفتگو کرنا مقصود ہے اس شادی کا پہلا ثمرہ اور جناب ام البنین کے پہلے بیٹے ہیں۔ فاطمہ کلابیہ خاندان پیغمبر میں قدم رکھنے کے بعد با فضیلت اور باکرامت خاتون بن گئیں ۔اور خاندان پیغمبر کے لیے نہایت درجہ احترام کی قائل تھیں۔ انہوں نے گھرانۂ وحی میں قدم رکھتے ہی یہ پہچان لیا کہ اجر رسالت مودت اہلبیت ہے۔ انہوں نے حسنین اور زینب و کلثوم کے لیے حقیقی ماں کا فریضہ ادا کیا۔ اور اپنے آپ کو ہمیشہ ان کی خادمہ قرار دیا۔ امیر المومنین کی نسبت ان کی وفا بھی حد درجہ کی تھی۔ امام علی (ع) کی شہادت کے بعد امام کے احترام میں اور اپنی حرمت کو باقی رکھنے کی خاطر انہوں نے دوسری شادی بھی نہیں کی۔ اگر چہ ایک دیرتک (تقریبا بیس سال ) آپ کے بعد زندہ رہیں۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین (ع) پر قربان ہونے کے لیے خاص تاکید کی اور ہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین (ع) کےبارے میں سوال کرتی تھیں۔ عباس بن علی(ع) ایسی ماں کا بیٹا تھے۔ اور علی (ع) جیسےباپ کا فرزند تھے۔ اور دست قدرت نے بھی ان کی قسمت میں وفا، ایمان، اورشہامت و شجاعت کو لکھ دیا تھا۔ آپ کی ولادت با سعادت ۴ شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ عباس کی ولادت نے خانہ علی (ع)کو نور امید سے روشن کردیا۔ اس لیےکہ امیر المومنین (ع) دیکھ رہے تھے کہ کربلا پیش آنے والی ہے یہ بیٹا حسین کا علمبردار ہو گا۔ اور علی (ع)کا عباس فاطمہ زہرا (س) کےحسین (ع) پر قربان ہو گا۔ جب جناب عباس نے دنیا میں قدم رکھا حضرت علی (ع) نے ان کے کانوں میں اذان و اقامت کہی۔ خدا اور رسول کا نام ان کے کانوں میں لے کر ان کی زندگی کا رشتہ توحید،رسالت اور دین کے ساتھ جوڑ دیا۔ اور ان کا نام عباس رکھ دیا۔ ولادت کے بعد ساتویں دن اسلامی رسم کو نبھاتے ہوئے ایک دھنبہ ذبح کروا کر عقیقہ دیا۔ اور فقراء میں تقسیم کیا۔ امیر المومنین (ع) کبھی کبھی جناب عباس کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے اور ان کی آستین کو پیچھے الٹ کر بوسہ دیتے تھے۔ اور آنسو بہاتے تھے۔ ایک دن انکی ماں ام البنین اس ماجرا کودیکھ رہی تھی، حضرت علی (ع) نے فرمایا: یہ ہاتھ اپنے بھائی حسین (ع) کی مدد اور نصرت میں کاٹے جائیں گے میں اس دن کے لیے رو رہا ہوں۔ جناب عباس کی ولادت سے خانۂ علی(ع) خوشی اور غمی سے مملو ہو گیا۔ خوشی اس اعتبار سے کہ عباس جیسا بیٹا گھر میں آیا ہے۔ اور غم و اندوہ اس فرزند کے آیندہ کے لیے کہ کربلا میں اس پر کیا گزرے گی۔ جناب عباس نے حضرت علی (ع) کے گھر میں حسنین(ع) کے ساتھ تربیت حاصل کی اور عترت رسول سے انسانیت ،شہامت، صداقت اور اخلاق کا درس حاصل کیا۔ امام علی (ع) کی اس خصوصی تربیت نے اس نوجوان کی روحی اور روانی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس کا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔ ایک دن امیر المومنین (ع) عباس کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھے حضرت زینب(س) بھی موجود تھیں امام نے اس بچے سے کہا: کہو ایک۔ عباس نے کہا : ایک۔ فرمایا : کہو دو۔ عباس نے دو کہنے سے منع کر دیا۔ اور کہا مجھے شرم آتی ہے جس زبان سے خدا کو ایک کہا اسی زبان سے دو کہوں۔ امام، عباس کی اس زیرکی اور ذہانت سے خوش ہوئے اور پیشانی کو چوم لیا۔ آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس بات کا باعث بنی کہ جسمی رشد و نمو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی رشد و نمو بھی کمال کی طرف بڑھی۔ جناب عباس نہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ عقلمندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی منفرد شخص تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں تاکہ اس دن حجت خدا کی نصرت میں جانثاری کریں۔ وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ شائد علی(ع)اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ کی تمام اولاد آپ کے اطراف میں نگراں وپریشاں اور گریہ کناں حالت میں جمع تھی، عباس کا ہاتھ حسین کے ہاتھ میں دیا ہوگا اور یہ وصیت کی ہوگی عباس تم اور تمہارا حسین کربلا میں ہوں گے کبھی اس سے جدا نہیں ہونا اور اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔ جوانی کی بہار جب سے عباس نے دنیا میں آنکھیں کھولیں امیر المومنین(ع) اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے اطراف دیکھا اور ان کی مہر و محبت کے سائے میں پروان چڑھے اور امامت کے چشمہ علم و معرفت سے سیراب ہوتے رہے۔ چودہ سال زندگی کے، جناب امیر کے ساتھ گزارے ۔ جب حضرت علی (ع) جنگوں میں مصروف تھے تو کہتے ہیں کہ جناب عباس بھی ان کے ساتھ جنگوں میں شریک تھےحالانکہ بارہ سال کے نوجوان تھے۔ نوجوانی کے زمانے سے ہی حضرت امیر (ع) نے انہیں شجاعت اور بہادری کے گر سکھا رکھے تھے۔ جنگوں میں حضرت علی (ع) انہیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے تھے انہیں کربلا کے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا۔ تاریخ نے اس نوجوان کے بعض کرشمے جنگ صفین میں ضبط کئے ہیں کہ جب آپ بارہ سال کے تھے۔ مگر آپ کے بھتیجےجناب قاسم تیرہ سال کے نہیں تھے کہ جنہوں نے اپنے چچا کی رکاب میں شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے کہ دشمن دھنگ رہ گئے؟ مگر آپ کے والد علی (ع) نوجوان نہیں تھے جب جنگ بدر و احد،اور خیبر و خندق میں مرحب و عنتر اور عمرو بن عبد ودّ جیسے نامی گرامی پہلوانوں کے ساتھ مقابلہ کر کے انہیں واصل جہنم کر کے پرچم اسلام کو سربلندی عطا کرتے رہے ؟ کیا جناب عباس کے نانہال والے قبیلہ بنی کلاب میں سے نہیں تھے جو شجاعت، بہادری اور شمشیر زنی میں معروف تھے؟۔ عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں ٹکراؤں کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین (ع) کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چوتھے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔ معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نو جوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المومنین (ع) نے اسے واپس بلا لیا نقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ ہاں یہ نوجوان کون تھا یہ قمر بنی ہاشم ، یہ بارہ سال کا عباس، یہ شیر خدا کا شیر تھا۔ نیز تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ صفین میں معاویہ کی فوج نے پانی پر قبضہ کر رکھا تھا جب امیر المومنین (ع) کی فوج کو پیاس لاحق ہوئی تو آپ نے امام حسین (ع) کی قیادت میں کچھ افراد کو پانی کے لیے بھیجا اور حضرت عباس امام حسین کے دائیں طرف تھے۔ جنہوں نے پانی کو باقی لشکر والوں کے لیے فراہم کیا۔ یہ ایام گزر گئے سن چالیس ہجری آگئی مسجد کوفہ کا محراب رنگین ہو گیا۔ جب حضرت علی(ع) شہید ہوئے حضرت عباس چودہ سال کے تھے۔ بابا کی شہادت کا عظیم صدمہ برداشت کیا رات کے سناٹے میں جنازے کا دفن کرنا برداشت کیا۔ اب ہر مقام ،عباس کے لیے امتحان کی منزل ہے عباس ہر منزل پر اپنا لہو پی کر برداشت کر رہے ہیں۔ باپ کے بعد حسنین (ع) عباس کی پناگاہ ہیں۔ ان کے اشاروں پر عمل کر رہے ہیں اور ہر گز اپنے باپ کی وصیت جو ۲۱ رمضان کو عاشورا کے سلسلے میں کی کہ حسین کو اکیلا نہ چھوڑنا فراموش نہیں کر رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے سخترین ایام درپیش ہیں کمر ہمت کو مضبوطی سے باندھے رکھیں۔ وہ دس سال بھی سختیوں کے گزار دیے جب امام حسن علیہ السلام مقام امامت پر فائز تھے اور معاویہ کی طرف سے مسلسل فریب کاریاں امام کو اذیت کر رہی تھیں۔ بنی امیہ کا ظلم و ستم عروج پکڑ رہا تھا حجر بن عدی کو شہد کر دیا عمرو بن حمق خزاعی کو شہید کر دیا علویان کو قیدی بنایا جانے لگا۔ منبروں سے وعظ و نصیحت کے بدلے مولا علی [ع] کو سب وشتم کیا جانے لگا۔ عباس ان تمام واقعات کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اپنا خون پی پی کرانہیں تحمل کر رہےتھے۔ آخر وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب امام حسن(ع) کو زہر دے دیا گیا اور ان کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر باہر آگیا۔ جنازے کو تیر لگ گئے عباس تلوار کو نیام سے نہ نکال سکے۔ عباس کرتے بھی کیا جب بھی ہاتھ قبضہ شمشیر پر رکھا ہے حسین(ع) نے یہ کہہ کے روک دیا ہے کہ عباس ابھی جنگ کا وقت نہیں ہے۔ عباس صبر کرو۔ آخر کار جناب عباس ان تلخ ایام کو بھی امام حسین (ع) کی رہنمائی کے سائے میں گزار دیتے ہیں اور مسلسل تاریخ کے نشیب و فراز کا اپنی گہری نگاہوں سے مطالعہ کرتے ہیں۔ جناب عباس (ع) کی ازدواجی زندگی جناب عباس نے اٹھاراں سال کی عمر میں امام حسن (ع) کی امامت کے ابتدائی دور میں عبداللہ بن عباس کی بیٹی لبابہ کے ساتھ شادی کی۔ عبد اللہ بن عباس راوی احادیث، مفسر قرآن اور امام علی (ع) کے بہترین شاگرد تھے۔ اس خاتون کی شخصیت بھی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھی تھی اور بہترین علم و ادب کے زیور سے آراستہ تھیں۔ جناب عباس کے ہاں دو بیٹے ہوئے عبید اللہ اور فضل جو بعد میں بزرگ علماء اور فضلاء میں سے شمار ہونے لگے۔ حضرت عباس کے پوتوں میں سے کچھ افراد راویان احادیث اور اپنے زمانے کے برجستہ علماء میں سے شمار ہوتے تھے۔ یہ نور علوی جو جناب عباس کی صلب میں تھا نسل بعد نسل تجلی کرتا گیا۔ اور کبھی خاموش نہیں ہوا۔ آپ مدینہ میں ہی قبیلہ بنی ہاشم میں رہتے تھے۔ اور ہمیشہ امام حسین(ع) کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کی مرگ کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ میں بلایا تیس جوان جناب عباس کی حکمرانی میں امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق اس کے باہر امام کے حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔ اور وہ لوگ جو مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا گئے وہ بھی جناب عباس کی حکمرانی میں حرکت کر رہےتھے۔ یہ جناب عباس کی جوانی کے چند ایک گوشہ تھے جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ اس کے بعد واقعہ کربلا ہے کہ جہاں عباس پروانہ کی طرح امام حسین (ع) کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی میرے مولا کو گزند نہ پہنچا دے۔سلام ہو عباس کے کٹے ہوئے بازوں پر۔سلام ہو عباس کی جانثاری اور وفاداری پر۔ ایک دن امام سجاد (ع) کی نگاہ عبید اللہ بن عباس پر پڑتی ہے انکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اوراپنے چچا عباس کو یاد کر کے فرماتے ہیں: رسول خدا(ص) کے لیے روز احد سے زیادہ سخت دن کوئی نہیں تھا۔ اس دن آپ کےچچا حضرت حمزہ کو کہ جو آپ کے شیر دلاور تھے شہید کر دیا گیا۔ بابا حسین کے لیے بھی کربلا سے زیادہ سخت دن نہیں تھا اس لیے اس دن عباس کو کہ جو حسین کا شیر دلاور تھا شہید کر دیاگیا۔ اس کے بعد فرمایا: خدا رحمت کرے چچا عباس پر کہ جنہوں نے اپنے بھائی کی راہ میں ایثار اور فداکاری کی۔ اور اپنی جان کو بھی دے دیا۔ اس طریقہ سے جانثاری کی کہ اپنے دونوں بازوں قلم کروا دیے۔ خدا وند عالم نے انہیں بھی جعفر بن ابی طالب کی طرح دو پر دئیے ہیں کہ جن کے ذریعے جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں عباس کا خداوند عالم کے ہاں ایسا عظیم مقام ہے جس پر تمام شہید روز قیامت رشک کریں گے۔ اور امام صادق (ع) نے جناب عباس کے بارے میں فرمایا: «كان عمُّنا العبّاسُ نافذ البصيره صُلب الايمانِ، جاهد مع ابي‏عبدالله(ع) وابْلي’ بلاءاً حسناً ومضي شهيداً؛ہمارا چچا عباس بانفوذ بصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے امام حسین کے ساتھ رہ کر راہ خدا میں جہاد کیا اور بہترین امتحان دیا اور مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔ منابع تحقيق: 1 . ارشاد، شيخ مفيد، كنگرهء هزارهء مفيد، قم، 1413 ق. 2 . اعيان الشيعه، سيد محسن الامين، دارالتعارف للمطبوعات، بيروت، 1404 ق. 3 . بحارالانوار، علامه محمد باقر مجلسي، مؤسسه الوفاء، بيروت، 1403 ق. 4 . تاريخ طبري، محمد بن جرير طبري، قاهره، 1358ق. 5 . ترجمهء نفس المهموم (محدث قمي)، شعراني، انتشارات علميه اسلاميه، تهران. 6 . تنقيح المقال، عبدالله مامقاني، مطبعه مرتضويّه، نجف، 1352ق. 7 . چهرهء درخشان قمر بني هاشم، علي رباني خلخالي، مكتبه الحسين، قم، 1375. 8 . حياه الامام الحسين بن علي، باقر شريف القرشي، دارالكتب العلميه، قم، 1397 ق. 9 . زندگاني قمر بني هاشم، عم‏اد زاده، انتش‏ارات خ‏رد، 1322 ش. 10 . سفينه البحار، شيخ عباس قمي، فراهاني، تهران. 11 . العباس، عبدالرزاق الموسوي المقرّم، منشورات الشريف الرّضي، 1360 ق. 12 . العباس بن علي، باقر شريف القرشي، دارالاضواء، بيروت، 1409 ق. 13 . قاموس الرّجال، محمد تقي شوشتري، مركز نشر كتاب، تهران. 14 . المحاسن والمساوي، ابراهيم بن محمد بيهقي، داربيروت للطباعه والنشر. 15 . معالي السبطين، محمد مهدي مازندراني حائري (چاپ سنگي)، مكتبه القرشي، تبريز. 16 . مفاتيح الجنان، شيخ عباس قمي، دفتر نشر فرهنگ اسلامي، تهران. 17 . مقاتل الطالبيين، ابوالفرج اصفهاني، دارالمعرفه، بيروت. 18 . مقتل الحسين، عبدالرزاق الموسوي المقرّم، مكتبه بصيرتي، قم، 1394 ق. 19 . منتهي الامال، شيخ عباس قمي، انتشارات هجرت. 20 . يادوارهء پنجمين مراسم شب شعر عاشورا (عباس، علمدار حسين)، ستاد شعر عاشورا، شيراز
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:4  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

ساقی دشت کربلا کی نیک صفات
ابوالفضل علیہ السلام نے بزرگوں کے دل و فکر کو مسخر کیا، ہر جگہ اور ہر وقت حریت پسندوں کے لئے زندہ جاوید ترانہ بن گئے؛ کیونکہ اپنے بھائی کے لئے ایک عظیم قربانی رقم کی، اس بھائی کے لئے جو ظلم و جور کے خلاف اٹھے تھے اور مسلمانوں کے لئے عزت جاویداں کمائی اور اسلام کو دائمی و ابدی عظمت عطا کی۔
دیکھتے ہیں کہ ہمارے بزرگ الہی پیشوا کیا فرماتے ہیں ساقی دشت نینوا کی شان میں؟:
1. امام سجاد علیہ السلام
تقوی اور فضیلت کی چوٹی پر رونق افروز امـام عـلى بـن الحسین، حضرت زین العابدین علیہ السلام اپنے چچا عباس کے لئے اللہ کی بارگاہ سے طلب رحمت کیا کرتے تھے اور بھائی حسین (ع) کے لئے ان کی قربانیوں کو نیکی کے ساتھ یاد کیا کرتے تھے اور ان کی جانبازیوں کی مسلسل تعریف و ستائش فرمایا کرتیےتھے۔
فرماتے ہیں:
اللہ تعالی میرے چچا عباس پر رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے قربانی دی اور آزمائش کی گھڑی سے نہایت خوبصورت انداز میں عہدہ برآ ہوئے۔ انھوں نے اپنے آپ کو بھائی پر قربان کردیا حتی کہ اس راہ میں آپ کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔ خداوند متعال نے ان دنیاوی ہاتھوں کی جگہ جعفر طیار بن ابی طالب علیہما السلام، کی طرح انہیں بھی دو بال عطا فرمائے جن کے ذریعے وہ جنت میں محو پرواز رہتے ہیں۔  عباس کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں وہ منزلت و مرتبت حاصل ہے کہ روز قیامت تمام شہداء ان کے مقام پر رشک کھاتے ہیں۔ 1
یہ امام معصوم کے کلمات ہیں جن سے علمدار کربلا کے حقیقی پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ وفا و اطاعت میں ایسے کہ کائنات کے لئے مثال ٹہرے۔ کبھی اپنے زمانے کے امام (ع) سے آگے نہیں بڑھے اور کبھی امام (ع) کی رائے کے سامنے اپنی رائے کو ترجیح نہیں دی۔ عارف تھے اور معرفت خدا و رسول و امام کے مالک تھے۔ جوشیلے نوجوان نہیں تھے بلکہ عارف و اطاعت گزار تھے۔
2ـ امام صادق علیہ السلام
امام صادق علیہ السلام رئیس مذہب جعفری ہیں، انسانی علوم کا بے مثل چہرہ ہیں، امین ائمہ و رسول اللہ (ص) ہیں، ہزاروں شاگردوں کے استاد ہیں مذاہب اربعہ کے امام آپ (ع) کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں اور اپ حضرت ابوالفضل (ع) کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں:
میرے چچا عباس علیہ السلام نافذ بصیرت اور ایمان محکم کے مالک تھے۔ اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا بہترین انداز سے آزمائش سے عہدہ برآ ہوئے اور شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔2
کلام امام (ع) کے اہم نکتے:

الف ـ دوراندیشی اور ہوشیاری
تـیـزبـیـنـى، اور ہوشیاری فکر کی استواری اور رائے کے استحکام کا نتیجہ ہے اور انسان صرف اسی صورت میں یہ استواری اور استحکام حاصل کرسکتا ہے کہ روح و نفس کی تہذیب و تزکیہ کرے، خلوص نیت کا مالک ہو، غرور اور نفسانی خواہشات کو اپنے آپ سے دور کرے اور انہیں اپنے باطن پر مسلط نہ ہونے دے۔
تیزبینی اور بصیرت ابوالفضل العباس کی برجستہ ترین خصوصیات میں میں سے ہے۔ تیزبینی اور فکر کی گہرائی کی بدولت ہی امام ہدایت اور سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی حمایت و پیروی کے لئے اٹھے اور شرف و کرامت کی چوٹیاں سر کردیں اور تاریخ کے صفحات پر امر ہوگئے۔ پس جب تک انسانی اقدار محترم ہیں انسان حضرت عباس کی بے مثل شخصیت کے سامنے سر تعظیم خم کرتا رہے گا۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ہمارے چچا عباس بن علی علیہ السلام نافذ بصیرت اور ایمان محکم کے مالک تھے۔ اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا اور نہایت خوبصورتی سے آزمائش سے عہدہ برآ ہوئے اور شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔
ب ـ ایمانِ محکم
حضرت عباس (ع) کی ایک اہم صفت آپ (ع) کے ایمان محکم سے عبارت ہے۔ ایمان محکم کی نشانی یہ ہے کہ آپ (ع) نے اپنے بھائی ریحانةالرسول (ص) کے ساتھ مل کر جہاد کیا جس سے مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول تھا اور یہ حقیقت روز عاشورا آپ (ع) کی رجز خوانی سے ظاہر و ثابت ہے کہ آپ (ع) کربلا میں دنیا کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لئے آئے تھے اور جانتے تھے کہ امام (ع) کی محبت کا اللہ کی اطاعت میں مضمر ہے اور یہ کہ امام حسین (ع) کا ساتھ دینا در حقیقت اللہ تعالی کے دین کی حمایت ہے۔ ایمان محکم دلیل یہی تو ہے۔
ج -  امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد
امام صادق علیہ السلام نے اپنے مختصر سے ارشاد میں قہرمان کربلا چچا عباس علیہ السلام کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت عباس (ع) نے اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا۔ اس جہاد کے سپہ سالار سید الشہداء سبط رسول خدا  (ص) اور سرور نوجوانان بہشت امام حسین بن علی علیہ السلام تھے۔ جہاد بھائی کی مقصد کے لئے ہورہا ہے اور بھائی نے فرمایا ہے کہ یہ جہاد امت محمد (ص) کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احیاء اور دین محمد (ص) کو انحراف سے بچانے کے لئے ہے۔ اپنے عظیم بھائی کے اس عظیم ہدف کے لئے جہاد میں شرکت ایک عظیم فضیلت تھی جو عباس (ع) نے ہاتھ سے نہ جانے دی۔ آزمائش کی گھڑی سے سرخرو ہوکر عہدہ برآ ہوئے، روز عاشور مردانگی اور اطاعت و وفا کے انمٹ نقوش چھوڑ دیئے اور شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔

د ـ فداكا ری اور جانفشانی
امام صادق علیہ السلام امام وقت بھائی امام حسین علیہ السلام کے راستے میں چچا عباس علیہ السلام کی فداکاری اور جان نثاری کی شہادت دے رہے ہیں جنہوں نے باطل کے خلاف لڑتے ہوئے خالصانہ انداز میں جانفشانی کی، کفر و باطل کے پیشواؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھائی کی پشت پناہی کی اور تاریخ کے عظیم ترین جانباز بن گئے؛ عظیم فداکاریاں کیں اور بھائی کے ساتھ مل کر شدید ترین دشواریاں برداشت کیں۔
امام صادق علیہ السلام زیارت جاری رکھتے ہوئے چچا عباس کی اعلی صفات اور اللہ کی بارگاہ میں آپ (ع) کی منزلت بیان فرماتے ہیں:
میں گواہی دیتا ہوں اور خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ آپ بدر کے مجاہدین کے راستی پر گامزن ہوئے اور اللہ کے راستے میں راہ خدا کے مجاہدین اور خدا پسند روشن ضمیروں اور اللہ کے دوستوں کی طرح اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ کے دوستوں کے مدافعین اور اس کے اولیاء کے مددگاروں کے حامیوں کی مانند لئے آگے بڑھے اور ان ہی کی مانند جِدّ و کوشش کی، پس خداوند متعال وہ مکمل ترین، بہترین اور والاترین پاداش آپ کو عطا فرمائے جو وہ اپنے اولیائے امر کے فرمانبرداروں اور اپنی دعوت کو لبیک کہنے والی ہستیوں کو عطا فرمایا کرتا ہے۔3
امـام صـادق علیہ السلام گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالی کو گواہ قرار دیتے ہیں کہ حضرت عباس عالم کے احرار کے باپ سیدالشہداء علیہ السلام کی راہ میں لڑتے ہوئے بدر کے مجاہدین کے راستے پر گامزن تھے؛ ان شجاع جوانمردوں کے راستی پر گامزن تھے جنہوں نے اپنے خوں سے اسلام کی دائمی فتح کو یقینی بنایا، وہ جو اپنے مقصد کے برحق ہونے پر یقین رکھتے تھے اور آگہی و بصیرت کے ساتھ شہادت کا انتخاب کیا اور توحید کا پرچم تاریخ کی چوٹی پر لہرایا اور کلمہ توحید کی صدا آفاق و انفس تک پہنچادی ۔ ابوالفضل العباس (ع) بھی اسی راستے پر گامزن ہوئے اور اسلام کو اموی اوباش اور ابوسفیان زادے کی چنگل سے نجات دلانے کے لئے میدان کارزار میں اترے وہی ابوسفیان زادہ جو کلمہ الہی کو مٹادینا چاہتا تھا اور اسلام کی بساط لپٹینا اور اسلام کا پرچم گرانا چاہتا تھا۔ آپ (ع) اپنے بھائی کے ہمراہ اس کے خلاف اٹھے اور اس راہ میں شہادت پائی۔
ابـوالفـضـل (ع) اپنے بھائی اور حریت پسندان عالم کے باپ سیدالشہداء حسین بن علی (ع) کی سپہ سالاری میں سفاک اموی طاغوت کے خلاف اٹھے اور ان ہی بھائیوں اور ان کے خاندان و انصار و اعوان کے قیام ہی کی برکت سے کلمہ حق کی تثبیت ہوئی اور اسلام فتحمند ہوا اور حق و حقیقت کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔

قتل حسین اصل میں مرگ يزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

امام صادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت جاری رکھتے ہوئے آپ (ع) کی الہی پاداش کے بارے میں فرماتے ہیں:
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نصیحت و خیرخواہی کا حق ادا کیا اور آپ نے اپنی انتہائی کوششیں کردیں، پس خداوند متعال نے آپ کو شہیدوں کے درمیان مبعوث فرمایا؛ آپ کی روح کو سعیدوں کی ارواح کے ہمراہ کردیا؛ آپ کو وسیع ترین بہشتی منزل میں جگہ عطا فرمائی اور بہترین کمرے آپ کے سپرد کئے اور آپ کے نام کو علیّین کے زمری میں عالمگیر کردیا اور انبیاء، شہداء، صالحین کا رفیق قرار دے کر ان کے ہمراہ محشور فرمایا اور کیا خوب رفقاء ہیں یہ۔
میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ نے سستی نہیں کی، پسپا نہیں ہوئے، اپنے امر میں بصیرت کے ساتھ آگے بڑھے جبکہ آپ صالحین اور انبیاء کی پیروی کررہے تھے۔ پس ہمارا اللہ آپ، اپنے نبی (ص) اور اپنے اولیاء (ع) کو بزگزیدگان اور طاہرین کے مقام پر مجتمع فرمائے کہ وہی ہے مہربانوں کا مہربان ترین۔4
زیارت کے اس آخری حصے میں ہم اس حقیقت سے واقفیت حاصل کرتے ہیں کہ کیا مقام و منزلت ہے امام صادق علیہ السلام کے نزدیک حضرت عباس علمدار کی؟ اسی بنا پر امام صادق علیہ السلام اپنے چچا کے لئے بہترین مقامات و درجات کی التجا کرتے ہیں اپنے پروردگار سے۔
3 ـ حضرت مہدی عَجَّلَ اللہ تَعالی فَرَجَہ الشَّریف
دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے والے اور دنیا پر حق و عدل کے غلبے کے سلسلے میں اللہ کے وعدوں کو سچا دکھانے والے نیز بنی نوع انسان کو نجات دلانے والے امام غائب  حضرت امام زمانہ مہدی آل محمد عَجَّلَ اللہ تَعالی فَرَجَہ الشَّریف ، قائم آل محمد (ص)، چچا عباس علمدار (ع) کی شان میں اپنے نہایت حسین کلام کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
سلام ہو ابوالفضل عباس بن امیرالمؤمنین (ع) پر، بھائی کے عظیم ہمدرد پر جن کی راہ میں آپ نے اپنی جان کا نذرانہ دیا، اور گذشتہ کل پر آئندہ کل کے اجر و پاداش کو ترجیح دی، وہی جو بھائی کے فدائی تھے اور بھائی کی حفاظت کی اور بھائی کو پانی پہنچانے کی کوشش کی اور آپ کے ہاتھ منقطع ہوئے۔ خداوند متعال ابوالفضل (ع) کے قاتلوں پر لعنت کرے۔4
امام عصر عَجَّلَ اللہ تَعالی فَرَجَہ الشَّریف اپنی چچا کے بنیادی اوصاف یوں بیان فرماتے ہیں:
1 ـ بھائی سیدالشہداء (ع) کے ساتھ ہمدردی اور ہمراہی نیز ہمدلی جو تاریخ میں ضرب المثل ٹہرے۔
2۔ تقوی کے ذریعے آخرت کا سامان فراہم کرنا، دنیا پرستی سے پرہیز کرنا اور ہدایت و نور کے امام کی مدد کرنا۔
3۔ اپنے اور اپنے بھائیوں کی جانیں سید جوانان بہشت امام حسین علیہ السلام کی راہ میں قربان کرنا۔
4۔ خون کا نذرانہ دے کر بھائی کی حفاظت کرنا۔
5 ـ بھائی اور بھائی کے اہل خانہ کو پانی پہنچانے کی کوشش کرنا ایسے حال میں جب اموی بادشاہ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے لشکر نے امام (ع) اور آپ کے خاندان و اصحاب پر پانی بند کردیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و مآخذ:
1- ذخـیـرة الداریـن ، ص 123 بـہ نـقـل از عـمـدة الطالب ۔
2- ذخیرة الدارین ، ص 123 بہ نقل از عمدة الطالب ۔
3- مفاتیح الجنان ، زیارت حضرت عباس ( علیہ السّلام )
4- مفاتیح الجنان شیخ عباس قمى و دیگر كتب ادعیہ و زیارات ۔
5- المزار، محمد بن مشہدى ، از بزرگان قرن ششم ۔
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 21:1  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  | 

حضرت عباس علمدار حسین (ع) کے مصائب

عباس علمدار کی والدہ “ فاطمہ ام البنین” کے قبیلے سے تعلق رکھتاتھا۔ درحقیقت عباس (ع) اور ان کے سگے بھائیوں کا دور کا رشتہ دار سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس نے حضرت عباس (ع) اور ان کے بھائیوں کے لئے یزیدی گورنر ابن زیاد لعین سے امان نامہ حاصل کیا تا کہ بزعم خود انہیں امام حسین علیہ السلام سے الگ کردے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی نجات دلائے!



ادامه مطلب
+ نوشته شده در  2011/10/24ساعت 22:20  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  |