بعثت کے گیارہویں سال پیغمبر نے یثرب کے قبیلہ خزرج کی چھ بزرگ شخصیتوں کو حج کے دوران منٰی میں دیکھا جب انہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ لوگ آپس میں کہنے لگے یہ وہی نبی ہے کہ جس کی بعثت سے یہودی ہم لوگوں کو ڈراتے آئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اسلام لانے میں ہم لوگوں پر سبقت لے جائیں لہذا ہم پہلے ہی اسلام لے آتے ہیں اسلام کو قبول کرنے کے بعد رسول خدا سے کہنے لگے کہ :ہم اپنی قوم کو دشمنی ، عداوت اور جنگ کی بد ترین حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں اور ہم یہ امّید کرتے ہیں کہ خدا وند عالم آپ کے طفیل میں ہماری دیرینہ عداوت ، کینہ اور دشمنی کو الفت اور محبّت میں تبدیل کر دے اب ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں تاکہ اپنے شہرمیں جا کر لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں ۔مسلمانوں کا یہ پہلا گروہ تھا کہ جس نے یثرب میں جا کر لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینا شروع کی ابھی کچھ دن بھی نہ گزرے تھے کہ پورے یثرب میں اسلام کاچرچہ ہو گیا کوئی بھی گھر ایسا نہ تھا کہ جہاں اسلام اور پیغمبر اسلام کی باتیں نہ ہو رہی ہوں ۔ بعثت پیغمبر کے بارھویں سال موسم حج میں عقبئہ منٰی کے نزدیک یثرب (مدینہ) کے بارہ لوگوں نے جن میں دس لوگ خزرج اور دو لوگ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے پیغمبر کے ہاتھ پر گنا ہوں سے بچنے اور نیک کاموں میں پیغمبر خدا کی اطاعت کرنے کا عہد و پیمان کیا اور پیغمبر نے بھی انہیں اس عہد و پیمان کی وفاداری پر جنّت کا وعدہ دے دیا۔ تاریخ اسلام میں اس عہد کوبیعت عقبئہ اوّل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ بارھویں سال کی طرح بعثت کے تیرھویں سال بھی بارہویں ذی الحجہ کو حج کے موقع پر ان ۷۵! لوگوں نے جو قافلہ حج کے ساتھ یثرب سے مکّہ آئے تھے عقبۂ منٰی کے نزدیک رات کے وقت مخفیانہ دوسری مرتبہ پیغمبر کے ساتھ عہد و پیمان کر لیا جس میں وہ لوگ اس چیز کے متعہد ہو گئے کہ اگر پیغمبر ان کے شہر کی طرف ہجرت کریں تو وہ اپنے گھر والوں (اہل وعیال)کی طرح آپ کی حمایت، اور اگر کوئی آپ سے جنگ کرے تو اس سے جنگ کریں گے اسی وجہ سے اس بیعت کو (بیعت الحرب) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے لیکن اس احتیاط ، پنہان کاری اوربیعت کے اس مسئلہ کو چھپانے کے باوجود، قریش کو اس بات کی اطلاع ہو ہی گئی اوروہ بیعت کرنے والوں کی تلاش میں نکل پڑ ے مگر ایک آدمی کے علاوہ کسی کو نہ پا سکے البتہ جو مسلمان مکّہ میں تھے ان کے ساتھ بہت سخت برتاؤ کرنے لگے انہیں برا بھلا کہتے اوربہت زیادہ ظلم و ستم کرتے تھے اسی وجہ سے پیغمبر نے مسلمانو ں کو یثرب کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ یثرب کی طرف ہجرت کر جاؤ کہ خدا وند عالم نے تمہارے لئے یثرب کو محل امن قرار دے دیا ہے اور تمہارے اسلامی بھائی وہاں پر موجود ہیں ۔تمام مسلمان دو مہینہ اور پندرہ دن کے اندر (نیمہ ذی الحجہ سے ماہ صفر کے آخر تک ) مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کر گئے اور مکّہ میں پیغمبر خدا ، علی مرتضیٰ ، ابو بکر اور دوسرے چندلوگوں کے علاوہ کوئی مسلمان باقی نہیں رہا اسی بناپر تاریخ اسلام میں ان مسلمانوں کو جو مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے ’’ مہاجرین ‘‘ اور یثرب کے ان مسلمانوں کو کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام ؐ کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا تھا ’’انصار ‘‘کہا جاتا ہے ۔ پیغمبرؐ کے قتل کی سازش :جب مسلمان مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں جا کر مستقر ہو گئے تو کفّار قریش کے سرداریہ سمجھ گئے کہ یثرب پیغمبر اوران کے مددگاروں کے لئے پناہ گاہ بن چکا ہے اور وہاں کے لوگ آپ کے دشمنوں سے لڑ نے کے لئے ہر وقت آمادہ ہیں توانہیں اس بات کا خوف پیدا ہواکہ کہیں پیغمبر بھی ہجرت کر کے یثرب نہ پہونچ جائیں ، کیوں کہ اگر ایسا ہو گیا تو انہیں بہت سی مشکلات اور خطروں کا سامنا کرنا پڑ ے گا اسی وجہ سے انہوں نے پیغمبر ؐ کے قتل کی سازش تیّار کی اوراپنی اس فکر بد اورخیال باطل کو جامہ عمل پہنانے کے لئے ربیع الاوّل کی پہلی رات کا انتخاب کیا ۔ علی کی فدا کاری :ادھر پیغمبر کو وحی کے ذریعہ اس کی اطلاع مل گئی اور خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آ گیا آپ نے علی کو کفّار کے اس ناپاک ارادہ سے آگاہ کیا اور فرمایا :’’اے علی آج تم میرے بستر پر میری سبزیمنی چادر اوڑ ھ کر سو جاؤ۔‘‘ علی نے نبی کے حکم کی تعمیل کی اور پیغمبر ہجرت کر گئے ۔ علی کی اس فداکاری کو دیکھ کر مشیت وجد میں آ گئی اور قرآن کی اس آیت(و من الناس من یشری۔۔۔واللہ رؤف بالعباد) کو فرشتوں کے حوالے کر کے اپنے محبوب کی مدح سرائی اور نغمہ خوانی کے لئے زمین پر بھیج دیا۔ ہجرت رسول ﷺکے فوائد : مسجد قبا کی تعمیر: حضر ت محمد مصطفٰے ﷺ بعثت کے چودھویں سال ربیع الاوّل کی چوتھی تاریخ کوغار سے نکل کر بارہ ربیع الاوّل کو( مدینہ کے اطراف محلّئہ قبا )عمر ابن عوف کے قبیلہ میں پہونچ گئے اور چند دن وہیں پر علی کے آنے کا انتظار کیا اور اسی مختصر قیام کی مدّت میں آپ نے وہاں پرمسجد قبا بھی تعمیر فرمائی ۔ ادھر علی نے پیغمبر کی ہجرت کے بعد تین دن مکّہ میں توقّف کیا اور اپنی ماموریت سے ( جو پیغمبر نے آپ کے سپرد کی تھی )فارغ ہو کر فاطمہ نام کی تین خواتین یعنی اپنی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد، فاطمہ بنت رسولؐ ، اور فاطمہ بنت زبیر ابن عبد المطلب اور دوسرے دولوگوں کو ساتھ لے کر یثرب( محلّہ قبا)میں پیغمبر سے جا ملے ۔ پیغمبر کا یثرب میں ورود اورمسجد نبوی کی تعمیر : جب علی محلّہ قبا میں رسول سے جا ملے تو آپ بنی نجّار (جناب عبد المطلب کے مادری رشتہ داروں )کے ایک گروہ کے ساتھ شہر یثرب کی طرف روانہ ہو گئے اور پہلی نماز جمعہ کو اسی مختصر سی مسافت کے درمیان قبیلہ بنی سالم میں اداکیا جب آپ شہر یثرب (مدینہ)میں وارد ہوئے تو لوگوں نے ایمانی ولولہ اور بہت ہی جوش و خروش کے ساتھ آپ کا استقبال کیا ، قبیلوں کے بزرگ اور سردار وں میں سے ہر شخص آپ کے ناقہ کی مہار پکڑ کراصرار کر رہا تھا کہ آپ ہمارے محلّہ میں قیام فرمائیں لیکن صاحب خلق عظیم کے مالک ، پیغمبراسلام فرماتے تھے کہ: ’’میرے ناقہ کے لئے راستہ سے ہٹ جاؤ جہاں وہ بیٹھ جائے گا وہی میرے قیام کی جگہ ہو گی ‘‘تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہوجائے ۔آخر کار پیغمبر کا ناقہ محلّہ بنی نجّار میں ابو ایّوب (خالد ابن زید خزرجی ) کے گھر کے نزدیک ایسی جگہ پر بیٹھا جو دو یتیم بچّوں سے متعلق تھی ابو ایّوب انصاری خوشی خوشی پیغمبر اسلام کے سامان سفر کو اٹھا کراپنے گھر میں لے آئے اورجب تک کہ مسجد نبوی کاتعمیری سلسلہ جاری رہا آپ نے وہیں قیام کیا یہاں تک کہ مسجد کے بغل میں آپ کے لئے ایک مخصوص حجرہ تعمیرکیا گیاجس کی تکمیل کے بعد آپ وہاں پرمنتقل ہوگئے
+ نوشته شده در  2011/11/5ساعت 15:4  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  |