|
مجلس نہم
مجلس نہم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمایاک نعبد و ایاک نستعین حضراتِ گرامی! انسان بارگاہِ رب العزت میں عرض کرتا ہے: یااللہ! فقط ہم تیرے سامنے جھکتے ہیں‘ وہ دین جس دین کے مطابق انسان اپنی زندگی بسر کرنے کا اقدا کر رہا ہے‘ یہ دین حق ہے‘ یہ دین‘ دین حقیقت ہے‘ دین شفقت ہے‘ یہ دین ہمیں درس دیتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و شفقت کے ساتھ پیش آئیں۔ چنانچہ اس دین کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے حضرت امام محمد باقر(علیہ السلام )فرماتے ہیں: دین اسلام کیا ؟ اطاعت مخلوق‘ اطاعت الخالق و شفقت المخلوق ہے۔ دین ہے خالق کی اطاعت اور مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش آنا‘ یہ دونوں کام اگر آدمی کرتا ہے تووہ سمجھتا ہے کہ ہم اس دین کے مطابق چل رہے ہیں۔ یہ کہ اپنے خالق کی اطاعت کرے‘ فرمانبرداری کرے‘ خالق کے حکم کے مطابق چلے اور دوسرا مخلوق کے ساتھ نہایت رحمت اور شفقت سے پیش آئے‘ کبھی ان پر ظلم و تعدی نہ کرے۔ دین کا سلسلہ اگرچہ حضرت آدم(علیہ السلام )سے چلا‘ لیکن جتنی دین کی ضرورت تھ‘ اتنی آتی رہی۔ دین کی کمالیت کب ہوئی؟ جتنے احکام کی اس کائنات کو احتیاج تھی‘ جتنے قوانین کی یہ کائنات محتاج تھی‘ اتنے قوانین اگر اس میں آ جائیں‘ تو گویا دین کامل۔ چونکہ اس دین نے قیامت تک کے لئے جانا ہے۔ لہٰذا قیامت تک کے لئے جتنے قوانین ہیں‘ جب تک وہ قوانین رسول اللہ کے زمانے میں مکمل نہیں ہوئے‘ اس وقت تک دین کو کمالیت کی سند نہیں ملی‘ وہ قوانین مکمل ہوئے‘ کامل ہو گئے۔ لہٰذا یہ دین‘ دین کامل ہو گیا۔ اب اس کے بعد نبوت کا کسی منصب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے: وما کان محمد ابا حد من رجا لکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین دیکھئے! رسالتمآب(ع)آپ میں سے کسی کے والد نہیں‘ آپ میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ ولکن رسول اللّٰہ کے رسول ہیں اور انبیاء(علیہ السلام )کے خاتم(ع) ہیں۔ تو انبیاء(علیہ السلام )کے خاتم(ع)(ع) کیوں قرار دیئے گئے؟ کہ جتنے قوانین کی ضرورت تھی‘ وہ سارے آ گئے۔ کائنات کو جن جن قوانین کی احتیاج تھی‘ قیامت تک کے لئے جن جن قوانین کی ضرورت تھی‘ وہ قوانین آ گئے ہیں۔ لہٰذا اس کے بعد کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یہ نبی عالمین کے لئے رحمت‘ اس کا قرآن عالمین کے لئے ہے‘ عالمین کے لئے یہ نبی آیا‘ آخری نبی بن کر کیوں؟ اس لئے کہ جن قوانین کی ضرورت تھی وہ سارے کے سارے قوانین چونکہ آ چکے ہیں‘ آپ کے بعد کسی ایسے شخص کی ضرورت نہیں ہے جو آئے اور ہمارے سامنے نئے قوانین کو پیش کرے۔ ظاہر ہے کہ ایک لحاظ سے آخری مجلس ہے۔ چاہتا ہوں کہ میں کچھ چیزیں‘ جن کا ذکر کیا گیا ہے‘ ان کا سارا نچوڑ‘ سارا نتیجہ عرض کر دیا جائے کہ دین رحمت ہے‘ دین‘ دین شفقت ہے۔ اس سے پہلے یہودیت گزر چکی تھی‘ نصرانیت آ چکی تھی‘ یہودیوں کی توجہ ہمیشہ مال و دولت کی طرف رہی۔ یہودیت یہی سمجھتی کہ جتنا ہو سکے مال و دولت جمع کرو‘ مال و دولت کے خزانے ہمارے پاس ہوں تاکہ یہ زندگی اچھے طریقے سے گزر سکے‘ لیکن جب اس کے مقابلے میں نصرانیت آئی تو نصرانیوں نے روحانیت کی طرف توجہ کی‘ مال و دولت کی طرف نصرانیوں کی توجہ نہ تھی۔ ٹھیک ہے مال و دولت کے خزانے ان کے پاس بن گئے‘ ورنہ عیسائیت کی توجہ روحانیت کی طرف تھی۔ عیسائیت روحانیت کا درس دیتی تھی‘ عیسائیت یہ کہتی تھی کہ گھروں میں بیٹھ جاؤ‘ خدا کی عبادت کرو‘ دنیا کا کوئی کام نہ کرو‘ نہ کسی کے ساتھ تعلق قائم کرو‘ کسی کے ہاں آنا جانا نہ کرو‘ آپ خدا کی عبادت کرتے رہے۔ چنانچہ ان کی روحانیت اس درجہ تک پہنچ گئی کہ کہتے تھے‘ کسی کا دل نہ دکھاؤ‘ کسی کو کچھ نہ کرو‘ جنگ کرنا ٹھیک نہیں۔ اگر ایک آدمی کسی انسان کو تھپڑ مارتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنا دوسرا رخسار اس کے سامنے پیش کر دے اور کہے کہ اس پر بھی طمانچے مارو۔ تو اب آپ نے دیکھا کہ یہ دونوں دین آپس میں متحارب تھے۔ یہودیت کی توجہ مادیت کی طرف اور عیسائیت کی توجہ روحانیت کی طرف‘ لیکن جہاں تک حضرت انسان کا تعلق ہے‘ یہ فقط مادی بھی نہیں‘ فقط روحانی بھی نہیں۔ اس کا بدن بھی موجود ہے‘ جسم بھی موجود ہے‘ روح بھی‘ لہٰذا اس کو مادیت کے لئے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے تاکہ مادی زندگی بسر کر سکے۔ روحانیت کے لئے بھی کسی کی ضرورت ہے تاکہ اس کا روح تعلق کر سکے۔ تو یہ دونوں دین‘ دونوں مذاہب چونکہ ایک ایک چیز کے لئے اپنے آپ کو کافی سمجھتے تھے‘ یہ کہ یہودیت کا تعلق فقط مادیت کے ساتھ‘ روحانیت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن دین اسلام چونکہ اس نے قیامت تک جانا ہے اور یہ کامل دین ہے‘ اس میں کسی قسم کی تعریف نہیں ہے‘ اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ دین دین معتبر ہے۔ نہ اس میں افراط‘ نہ اس میں تفریح‘ نہ یہ دین ہمیں کہتا ہے کہ صرف دنیادار بن جاؤ‘ روحانیت کو پس پشت ڈال دو اور نہ یہ دین ہمیں کہتا ہے کہ راہب بن جاؤ‘ گھروں میں جا کر بیٹھ جاؤ‘ ہر وقت اللہ اللہ کرو‘ ہر وقت خدا کی عبادت کرو‘ ہر وقت اپنا سر جھکائے رہو اور مال و دنیا کا کوئی کام نہ کرو‘ دنیا کی کمائی نہ کرو‘ نہیں… بلکہ یہ دین ہمیں یہ درس دیتا ہے‘ جیسے کہ رسالتمآب نے فرمایا ہے کہ لیس منا من ترک الاخیرہ الادنیا وہ شخص ہمارا نہیں جو آخرت کو دنیا کے لئے خراب کرے۔ بس دنیا میں ہی مگن رہے‘ آخرت کی پرواہ نہ کرے اور دوسرے کلمے میں ارشاد ہے: و لیس منا من ترک الدنیا للاخیرہ وہ بھی ہم میں سے نہیں جو دنیا کو چھوڑ دے اور فقط آخرت کار ہو جائے۔ بلکہ انسان کو دنیاوی راستے اختیار کرنے چاہئیں‘ دنیا میں اس طرح کام کرنا چاہئے کہ وہ سمجھے کہ میں نے ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے‘ لیکن خدائی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے آخرت کے لئے اس طرح کام کرے کہ وہ سمجھے ہو سکتا ہے میری کل میں موت واقعہ ہو جائے‘ اس وقت مجھے دربارِ خداوندی میں حاضر ہونا ہے۔ لہٰذا یہ کام اس طرح کرنا چاہئے کہ اگر اسی وقت موت واقع ہو جائے تب بھی میں تیار ہوں‘ خدا کے دربار میں حاضر ہو سکتا ہوں اور وہاں جا کر اپنا حساب و کتاب ابھی دے سکتا ہوں تو دونوں چیزوں کو سامنے رکھے گا۔ تو یہ دین‘ دین معتبر ہے۔ تو اب اگر کوئی شخص فقط دنیا کو لے لے‘ خدائی قوانین کو چھوڑ دے۔ قوانین الٰہی کی طرف توجہ نہیں‘ دنیا کی کمائیوں کے لئے حلال و حرام کی توجہ نہیں‘ تو یہ شخص حقیقی مسلم نہ ہو گا۔ اب اس کا تعلق یہودیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے‘ اگر کوئی شخص آخرت کو لے لے‘ راہب بن جائے‘ راہبانہ زندگی بسر کرنا شروع کر دے تو ہو سکتا ہے کہ یہ اسلام اس کا اپنی جگہ رہے‘ لیکن زیادہ تر اس کی بازگشت عیسائیت کی طرف ہو گی۔ معتبر دین اختیار کرو‘ نہ فقط مادی بن جاؤ‘ نہ فقط روحانی۔ تمہارا جسم مرکب ہے‘ دو چیزوں سے: بدن اور روح۔ بدن کے لئے دنیا کی ضرورت ہے‘ روح کے لئے آخرت کی ضرورت ہے‘ لہٰذا اگر دونوں کو اس طرح اکٹؤے کر کے رکھو تو تب تمہاری زندگی کامیاب ہو گی‘ اگر ہم نے ایک کو لے لیا تو تمہاری زندگی کامیاب نہ ہو گی۔ ابھی پرسوں تذکرہ کیا تھا‘ عثمان بن حنیف کا‘ جو گورنر ہے۔ اس نے آپ کے مولا(علیہ السلام )کی خدمت میں عرض کی کہ مولا(علیہ السلام )! تنخواہ کم ہے‘ میرا شہریہ کم ہے‘ اس میں اضافہ کیا جائے تاکہ میرا وقت اچھا گزر سکے۔ فرمایا: تمہیں تو معقول تنخواہ دی جاتی ہے‘ اس میں اضافے کی ضرورت کیوں پڑ گئی‘ اتنی تنخواہ دی جاتی ہے جو آپ کی ضرورت زندگی کے لئے کافی ہے۔ اگرچہ حکومتیں موجود ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی کہلاتی ہیں‘ لیکن اسلامی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کو کوئی ایسا کام دے‘ جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی عزت سے بسر کر سکے‘ ملازمت میں‘ کاروبار میں اس کی مدد کرے۔ اگر کسی کو حکومت اسلامی کوئی کام نہیں دیتی‘ روزگار فراہم نہیں کرتی تو حکومت اسلامی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اخراجات لازم پورے کرے‘ کیونکہ اسے کام نہیں دیا جا رہا۔ آج یورپ میں دیکھیں تو وہ اس حکم پر عمل کر رہے ہیں‘ لیکن ہمارے حکمران اپنے پیٹ سے فارغ نہیں ہوتے‘ ان کی توجہ قوم کی طرف ہو اور قوم کے لئے کچھ کر سکیں۔ ہاں تو عرض کر رہا تھا کہ اس گورنر نے مولا(علیہ السلام )کی خدمت میں تنخواہ میں اضافے کا معاملہ پیش کیا۔ امیر(علیہ السلام )نے فرمایا‘ تیری تنخواہ معقول ہے‘ اس میں اضافہ کیوں کیا جائے؟ عرض کیا‘ مولا(علیہ السلام )! یہ تنخواہ میرے لئے تو کافی ہے‘ مگر بڑے بھائی کے بال بچے ہیں جن کے اخراجات مجھے دینے پڑتے ہیں‘ اس لئے چونکہ دو گھرانوں کے اخراجات میرے ذمے ہیں‘ لہٰذا تنخواہ کافی نہیں ہے۔ مولا(علیہ السلام )نے پوچھا: تیرا بھائی کیا کرتا ہے؟ کہا کہ بس اللہ اللہ کرتا ہے‘ رات دن نمازیں پڑھتا ہے‘ کوئی کام نہیں کرتا۔ آپ(علیہ السلام )نے اس کے بھائی کو بلا کر فرمایا: راہب یہ دن رات نمازیں کیوں پڑھتے رہتے ہو؟ کہنے لگا‘ مولا(علیہ السلام )! آپ(علیہ السلام )کی سنت پر عمل کرتا ہوں۔ مولا(علیہ السلام )! آپ کیا کرتے ہیں؟ ایک ہزار رکعت نماز رات پڑھتے ہیں۔ میرے اندر اتنی طاقت نہیں کہ ہر رات کو ہزار رکعت نماز پڑھ سکوں‘ لہٰذا دین رات لگا رہتا ہوں‘ چوبیس گھنٹے لگا رہتا ہوں‘ تب جا کے میں اپنی نمازیں پوری کر سکتا ہوں‘ میں بھی آپ(علیہ السلام )کی سنت پر عمل کرتا ہوں۔ تو حضرت(علیہ السلام )نے فرمایا: ہزار رکعت نماز پڑھنا ہمارے لئے ہے‘ جہاں تک تیرا تعلق ہے کہ تم صرف واجبات ادا کرو‘ جو فریضہ ہے اسے پورا کرو‘ اس کے بعد اپنا کام کرو‘ بچوں کے لئے روزی کماؤ‘ اپنی روزی کا بندوبست کرو‘ اس کام کے دوران وقت ملے تو نوافل و مستحاب ادا کرو‘ ورنہ نوافل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے دیکھا کہ مولا(علیہ السلام )خود روک رہے ہیں‘ اس لئے تمہاری توجہ اس طرف ہونی چاہئے کہ ہم نے بچوں کے لئے روزی کمانا ہے‘ رزق کے لئے کوشاں ہونا ہے‘ لیکن یہ مسئلہ ذہن میں رہے کہ رزق حلال طریقے سے کمایا جائے‘ لیکن اگر حرام طریقے سے کمایا جائے تو خواہ وہ بچوں کے لئے ہو‘ جائز نہیں۔ مولا(علیہ السلام )ہمیں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اسلام‘ یہ دین اسلام معتبر ہے‘ یہ دین معقول ہے‘ اس میں افتراق نہیں‘ تفرق نہیں‘ نہ وہ تمہیں صرف دنیادار بناتا ہے‘ نہ تمہیں نماز میں رہنے والا بناتا ہے‘ بلکہ یہ دین تمہیں کہتا ہے کہ دنیا کے لئے اس طرح بن جاؤ کہ اسی میں رہنا ہے اور آخرت کے لئے اس طرح کام کرو کہ گویا آج ہمارا آخری دن ہے‘ آج ہم نے چلے جانا ہے۔ لیکن دین ہے کیا؟ ظاہر ہے کہ اس وقت میں پوری تفصیل عرض کرنا مشکل ہے۔ البتہ چند چیزیں بنیادی ہیں‘ عرض کر دیتا ہوں۔ سب سے پہلی چیز یہ کہ یہ دین ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسانیت کو بلند کرنے کے لئے ہے‘ دین اسلام انسانیت کو عروج تک پہنچانے کے لئے آیا ہے‘ انسانیت کو کمال تک پہنچانے کے لئے آیا ہے۔ لہٰذا ہمیں اجازت نہیں دی گئی کہ ہم انسانیت کو پس پشت کریں‘ ہمیں یہ اجازت نہیں دی گئی کہ کسی کی خودداری کو ٹھیس پہنچائیں‘ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ شخص کو ذلیل کیا جائے کہ اپنی انسانیت کو بھول جائیں‘ اپنے آپ کو ذلیل سمجھنا شروع کر دے‘ لہٰذا اگر ذلیل کیا جائے‘ کسی کو اتنا بے عزت کیا جائے‘ کسی سے اتنی بے رخی سے برتاؤ کیا جائے کہ وہ سمجھے کہ میں انسان نہیں ہوں‘ انسان تو وہ ہیں جو کرسی پر بیٹھے ہیں‘ مجھے تو یہ چاہئے کہ زمین پر بیٹھ جاؤں‘ اگر کسی کی انسانیت کو ہم نے مردہ کر دیا تو یہ فعل ایسے ہی ہے جیسے قتل۔ اگر کسی کی انسانیت کو زندہ کر دیا تو ایسے ہے جیسے کسی کو زندگی بخش دی۔ تو آپ سمجھتے ہیں کہ زندگی رکھنا کتنا بڑا کارنامہ ہے اور کسی کو قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے تھوڑی سی زحمت دوں گا۔ امراء بیٹھے ہیں‘ اعلیٰ لوگوں کا طبقہ بیٹھا ہے‘ دولت مند موجود ہیں‘ ان کے سامنے ایک آدمی آتا ہے‘ آدمی مومن ہے‘ مولائی ہے‘ محب اہل بیت(علیہ السلام )ہے‘ لیکن ہے بے چارہ غریب و فقیر‘ نماز کا پابند ہے‘ تہجد گزار ہے۔ جب یہ شخص امراء کے طبقے کے پاس آ کر سلام کرتا ہے تو وہ اس کے سلام کا جواب دینا پسند نہیں کرتے۔ خاموشی سے بیٹھ جاؤ‘ کہتے ہیں۔ اسے کرسی پیش نہیں کی جاتی‘ اس کی عزت کے لئے کچھ خرچ نہیں ہوتا‘ مگر پھر بھی اسے کوئی کچھ نہیں سمجھتا‘ کوئی سلام کرنا تو درکنار‘ جواب و سلام نہیں دیتا‘ بے توجہی بڑھتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ آدمی پریشان ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بھی علی(علیہ السلام )کے ماننے والے ہیں‘ میں بھی علی(علیہ السلام )کا ماننے والا ہوں‘ میں نماز بھی پڑھتا ہوں‘ تہجد پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ عبادت بھی ان سے زیادہ کرتا ہوں‘ لیکن کیا وجہ ہے کہ میری عزت نہیں کرتے؟ کیا وجہ ہے کہ مجھے اٹھ کر نہیں ملتے؟ یہ کھڑے ہو کر میرا استقبال نہیں کرتے‘ میرے ساتھ بات چیت نہیں کرتے؟ ظاہر ہے کہ جب محسوس کرے گا‘ تو کہے گا کہ یہ لوگ اچھے نہیں ہیں‘ اگر اچھے ہوتے تو میری عزت کرتے۔ اب دوسری دفعہ کبھی ان کے پاس پھر آیا‘ کسی نے عزت نہیں کی‘ پھر تیسری دفعہ‘ چوتھی دفعہ‘ پانچویں بار ان امراء کے پاس آیا‘ مگر کسی نے ایک دفعہ بھی عزت نہیں کی‘ تو ایک منزل ایسی آئے گی کہ وہ یقین کرے گا کہ یہ لوگ ہیں معززین‘ یہ امراء ہیں‘ بڑی بڑی شخصیت کے مالک ہیں‘ بڑی عزت والے ہیں‘ میں اس قابل نہیں ہوں کہ ان کے برابر کرسی پر بیٹھوں‘ چاہئے کہ میں نیچے زمین پر بیٹھوں اور ان کے حقے بھرتا رہوں اور یہ لوگ کرسی پر بیٹھیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ وہ شخص باوجود کہ خدا کی عبادت کر رہا ہے‘ مگر اپنی انسانیت کو بھول گیا ہے‘ اس کی انسانیت مردہ ہو گئی ہے‘ اس کی انسانیت پست ہو گئی ہے‘ وہ اپنی انسانیت کو سمجھتا ہی نہیں ہے‘ وہ یہ ماننے لگ جاتا ہے کہ یہ معززین کا طبقہ ہے‘ یہ بڑی شخصیتیں ہیں اور ہمارا کام ہے‘ ایک نوکر کی طرح کام کرنا‘ ہمارا کام ہے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر سلام کرنا‘ ان کے لئے اٹھ کر تعظیم کرنا۔ یہ تو بڑے آدمی ہیں‘ بڑی شخصیتیں ہیں‘ یہ وہ منزل ہے کہ غریب آدمی بے چارہ اپنی انسانیت کو بھول جاتا ہے‘ اسے احساس تک نہیں رہتا کہ میں بھی انسان ہوں‘ یہ بھی خالق کی مخلوق ہے‘ وہ بھی… یہ بھی علی(علیہ السلام )کے ماننے والے ہیں اور وہ بھی علی(علیہ السلام )کے ماننے والے‘ فقط فرق رہے گا ان کے پاس چند کوڑی سکے ہیں اور اس غریب کے پاس مال و دولت نہیں ہے‘ اس لئے یہ اپنی انسانیت کو مردہ کر چکا ہے۔ بس جو کوئی بھی اس غریب کی انسانیت کو مار رہا ہے‘ وہ یہ سمجھے کہ میں اسے زندہ درگور کر رہا ہوں‘ اپنی موت مار رہا ہوں‘ یہ چلتی پھرتی لاش ہے‘ اس لئے کہ اس کو اپنی انسانیت کا پتہ نہیں ہے‘ لیکن وہی غریب انسان پسماندہ انسان اگر ایسے معززین کی محفل میں آئے اور امراء طبقہ اسے دیکھ کر کھڑے ہو جائیں‘ اس کا استقبال کریں‘ ایک دفعہ تو یہ غریب حیران ہو جائے گا ناں… سوچتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ‘ یہ معزز لوگ‘ میں غریب آدمی‘ زمین پر بیٹھنے والا‘ یہ بڑی شخصیتیں‘ میں حقیر انسان‘ مگر میرے لئے کھڑے ہو گئے۔ لیکن اگر یہی امراء ہر دفعہ اس کے آنے پر اسی طرح کھڑے ہوتے رہے تو آہستہ آہستہ اس کی حیرانی ختم ہو جائے گی اور اس کی انسانیت بیدار ہوتی جائے گی اور وہ سوچے گا‘ یہ بھی انسان‘ میں بھی انسان‘ میں ان کی تعظیم کرتا ہوں‘ یہ میری تعظیم کرتے ہیں‘ جب وہ ایسی منزل پر پہنچتا ہے تو قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے: من احیا ھافکا نما احیاء الناس جمیعا "جو شخص ایک انسان کی شخصیت کو زندہ کرتا ہے‘ وہ سمجھے کہ میں نے پورے انسان کو زندہ کیا۔" جہاں مال و دولت کو دیکھا جاتا ہے‘ وہاں متقی و پرہیزگاری کو نہیں دیکھا جاتا۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ غریب آدمی انتہائی پاک ذہن کے آدمی کے لئے کوئی کھڑا نہیں ہوتا‘ لیکن اگر کوئی ایسا آ جائے جس کے پاس چند کوڑیاں موجود ہوں تو لوگ اس کا استقبال کریں گے‘ یہ پتہ نہیں کہ اس کا کاروبار حرام مال سے بنا یا حلال مال سے… زمینیں ہیں لیکن حرام مال سے‘ سب کچھ حرام مال سے‘ لیکن آدمی اس کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو گیا۔ اس غریب کے لئے کھڑا نہ ہونا اور جس شخص کا کاروبار مال حرام سے ہے‘ اس کے لئے کھڑا ہونا۔ گویا یہ بتاتا ہے کہ خدا کے احکام کا ہمیں پاس نہیں‘ ہمیں انسانیت کا لحاظ نہیں‘ ہمیں تو مال و دولت کا لحاظ حے‘ جس کے پاس مال ہو گا‘ اس سے ہمیں قرب حاصل ہو گا۔ ہم انسان کے لحاظ سے پستی کی طرف ہیں‘ جس کا پاس نہ ہو گا وہ ہمارے لحاظ سے پست ہو گا‘ ورنہ عبادت کے لحاظ سے کئی گنا بہتر ہو گا۔ اسلام ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے‘ انسانیت کی عظمت کا درس دیتا ہے‘ انسان کے عروج و ارتقاء کا درس دیتا ہے۔ دوسرا اسلام مساوات کا درس دیتا ہے۔ مساوات کیا؟ مساوات یہ نہیں کہ تمام لوگ ایک جیسے ہو جائیں‘ سب غریب ہو جائیں‘ سب فقیر ہو جائیں یا سب امیر ہو جائیں۔ ایسی مساوات قائم ہو سکتی ہے‘ مساوات سے مراد مساوات‘ جیسے مولائے کائنات(علیہ السلام )کا فرمان ہے‘ کسی انسان کو اپنے سے ذلیل نہ سمجھنا‘ اگر ایک انسان غلط کار آدمی ہے‘ ہو سکتا ہے اس میں ایسی کوئی نیکی پائی جائے جو اس کے اندر موجود ہو تو کسی کو ذلیل نہ سمجھو۔ چنانچہ اس لئے مولا(علیہ السلام )فرماتے ہیں: جتنا انسان دنیا میں موجود ہے وہ میرا بھائی ہے یا دوسرے لفظوں میں اگر وہ تیری طرح مومن ہے‘ تیری طرح مسلمان ہے تو وہ بھائی ہو گا۔ اگر ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہوتا ہے‘ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو اذیت نہیں دے سکتا‘ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا مال نہیں لوٹ سکتا‘ اسے زخمی نہیں کر سکتا‘ اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں دے سکتا‘ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو تکلیف نہیں دیتا بلکہ مسلمان ہوتا ہی وہ ہے جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے‘ جس کی زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اب اگر کوئی شخص مومن ہے‘ مسلمان ہے تو میرا بھائی‘ ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہوتا ہے‘ لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ غیر مسلم ہے‘ کافر ہے‘ یہودی ہے‘ نصرانی ہے‘ وہ تیرا بھائی تو نہیں ہو سکتا‘ اسے بھائی نہ سمجھنا‘ وہ تیری طرح کی مخلوق ہے‘ جیسے تجھے اس خالق نے پیدا کیا‘ ویسے ہی اسے خالق نے اسے بھی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا جتنے انسان بھی ہین‘ وہ مجھ سے بڑے ہوں گے یا میرے ہم عمر ہوں گے یا مجھ سے چھوٹے ہوں گے اور تو کوئی صورت نہیں۔ اگر کوئی تجھ سے چھوٹا ہے‘ اس کی بھی عزت کر‘ شفقت سے پیش آ۔ کیوں یہ خأال کرتے ہوئے‘ یہ مجھ سے چھوٹا ہے‘ اس کے گناہ مجھ سے کم ہوں گے؟ چونکہ مجھ سے چھوٹا ہے لہٰذا اس کے گناہ مجھ سے کم ہوں گے۔ اگر ایک شخص آپ سے بڑا ہے تو اس کی بھی عزت کی جائے‘ اس لحاظ سے کہ کیونکہ یہ شخص مجھ سے بڑا ہے‘ اس کی نیکیاں مجھ سے زیادہ ہوں گی۔ کون سی برائی ایسی ہے جو کسی انسان میں نہیں ہوتی؟ لیکن نیکیاں تو انسان میں ہوتی ہیں‘ تو چھوٹے کے لحاظ سے بھی یہ خیال کرے کہ اس کے گناہ مجھ سے کم ہیں‘ بلکہ بڑے‘ اس کی نیکیاں مجھ سے زیادہ ہوں اور جو اپنا ہم عمر ہے اس کے متعلق یہ خیال کر لے کہ میں تو اپنی غلطیوں کو جانتا ہوں‘ اپنے گناہوں کو جانتا ہوں‘ اپنی خطاؤں کو جانتا ہوں‘ لیکن مجھے حقیقی طور پر پتہ نہیں‘ اس کی خطاؤں کا۔ لہٰذا ہو سکتا ہے اس کی کوئی ادا مجھ کو پسند آ جائے‘ میری کوئی ادا اسے پسند نہ ہو۔ اس لحاظ سے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ ہر شخص کی عزت کرے یا اس کا بھائی یا اس جیسی مخلوق ہے۔ چھوٹا ہے شفقت سے پیش آئے‘ بڑا ہے عزت کرے‘ اگر ہم عمر ہے تب بھی اس کی عزت کرے‘ اگر اس طرح کرے گا‘ گویا اس نے انسانیت کی عزت کی‘ انسانیت کو چار چاند لگا دیئے اور اس قدر بلندی پا لی۔ اسلام ایک اور چیز جس کی طرف زیادہ توجہ دے رہا ہے‘ پورا عشرہ آپ کی خدمت میں پڑھا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں‘ اس میں فضائل و برکات بیان کئے گئے ہیں یہ جو کچھ بیان کر رہا ہوں‘ یہ مولا(علیہ السلام )کے فرامین یعنی یہ مولائے کائنات(علیہ السلام )کے فرامین‘ اس مولائے کائنات(علیہ السلام )کے فرامین ہیں جو ہماری زندگی کے لئے‘ ہماری تربیت کے لئے‘ ہماری خود سازی کے لئے خدائی ہے‘ لہٰذا ان کا تذکرہ کیا جائے۔ صلواة اسلام ایک اور چیز جس کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے‘ وہ ہے عدالت۔ آج کل ہمارے ملک میں حقیقی خرابیاں پائی جاتی ہیں‘ ان کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ پر پریشان ہے‘ اسے یہ پتہ نہیں چل رہا کہ اب مجھے کہیں سے انصاف بھی مل سکتا ہے یا نہیں۔ کوئی مارا جاتا ہے تب انصاف نہیں ملتا‘ کسی کا مال لوٹ لیا جائے تب بھی انصاف نہیں ملتا‘ چوری کر لی جائے انصاف نہیں ملتا‘ اگر کوئی گھر لوٹ کر لے جائے تب ہر شخص کو توقع یہی ہوتی ہے کہ مجھے کچھ نہیں ملے گا۔ پولیس کے پاس جاؤں گا تو مجھے دیکھیں گے میں پیچھے رہ جاؤں گا۔ پولیس والے جب آئیں گے تو خرچہ ہو گا‘ پیسے لیں گے اور کہیں گے کہ جب تک قائداعظم کا پرچم بلند ہے اس وقت تک کام نہیں ہو سکتا۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی ایسا ملک کہ جس ملک میں انصاف مہیا نہیں ہو رہا‘ وہاں کے لوگ پریشان ہوں گے۔ نتیجہ کیا ہے کہ پاکستان کا ہر شخص اپنی اپنی جگہ پریشان ہے‘ امراء اپنے آپ کو بڑا کہنے والے‘ اپنے آپ کو معزز کہنے والے وہ اپنے پیٹ سے فارغ نہیں ہیں کہ قوم کے لئے کچھ کر سکیں‘ لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے‘ اسلا م نے عدالت کا معیار اتنا بلند کیا ہے کہ اسلام کی عدالت کو دیکھ کر غیر مسلم اسی وقت مسلمان ہو گئے کہ اسلام کی عدالت اتنی بلند ہے کہ ہماری عدالتیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ایک طرف حلال مشاکل(علیہ السلام )اور دوسری طرف یہودی ہیں۔ یہودی کہتا ہے کہ یہ تلوار میری ہے۔ مولا(علیہ السلام )نے فرمایا: تلوار میری ہے۔ جب مولا(علیہ السلام )پنچائیت کے سامنے پیش ہوئے‘ اس وقت میرے مولا(علیہ السلام )امام ہونے کے ساتھ ساتھ سربراہ مملکت بھی ہیں‘ خلیفہ وقت بھی ہیں‘ حکومت کی باگ ڈور بھی ان کے ہاتھ میں ہے اور سامنے ان کا معین کردہ قاضی ہے۔ آج کل حاکم بھی بڑے پکے مسلمان ہیں‘ انہیں بھی چاہئے کہ اپنے آپ کو اسی طرح عدالتوں میں پیش کیا کریں‘ عدالت و قاضی کو اپنے سامنے پیش نہ کریں۔ ہاں تو عرض کر رہا تھا کہ قاضی مولا(علیہ السلام )کا اپنا متعین کردہ ہے‘ جب اس کی عدالت میں آئے تو قاضأ تعظیماً کھڑا ہو گیا۔ مولائے کائنات(علیہ السلام )نے فرمایا: اے قاضی! تیری یہ پہلی ناانصافی ہے کہ اگرچہ میرے(علیہ السلام )مقابلے میں یہودی ہی ہے‘ مگر عدالت میں دونوں فریقوں سے مساوی سلوک ہونا چاہئے‘ تو میرے(علیہ السلام )لئے تو کھڑا ہو گیا‘ اس کے لئے کھڑا نہیں ہوا۔ جب معاملہ پیش ہوا اور دونوں اطراف سے گواہ پیش ہوئے تو بات قسم پر آ گئی۔ امیر(علیہ السلام )نے فرمایا: تلوار کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لئے قسم اٹھائی جائے‘ نتیجتاً تلوار یہودی کو دے دی گئی۔ تو اب یہودی نے دیکھا کہ یہ(علیہ السلام )مولائے کائنات(علیہ السلام )بھی ہیں‘ سربراہ مملکت بھی ہیں‘ بادشاہِ حکومت بھی ہیں‘ حکومت کے مالک بھی ہیں‘ دوسری طرف انہی(علیہ السلام )کا متعین کردہ قاضی بھی ہے‘ پھر مولائے کائنات(علیہ السلام )خود فرما رہے ہیں کہ تیری یہ ناانصافی ہے کہ تو اس کے لئے کھڑا نہیں ہوا۔ اگر چاہتے تو آپ(علیہ السلام )اپنے پاس تلوار رکھ سکتے تھے اور خدا کی قسم بھی نہیں اٹھائی کہ اللہ کا نام بہت بڑا ہے‘ اس کے لئے قسم نہیں اٹھائی جا سکتی۔ اس یہودی نے کسی حاکم کے دربار میں ایسا منظر کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ سوچتا جا رہا ہے‘ چند قدم چلنے کے بعد وہ واپس لوٹ آیا۔ امام(علیہ السلام )کے قدموں پر گر گیا اور کہنے لگا: مولا(علیہ السلام )! آپ(علیہ السلام )کا عدل مجھے مجبور کر رہا ہے کہ میں کلمہ پڑھوں۔ جب مولا(علیہ السلام )نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو ایک اعلان فرمایا: عدالتوں کا معیار بلند کرنے کے لئے جو بھی غلط کار ہو گا‘ تخریب کار ہو گا‘ غلطی میں پکڑا جائے گا اس کو سزا دی جائے گی۔ (ہمارے ہاں بڑے آدمی سزا سے بچ جاتے ہیں۔ گورنر‘ وزیر‘ مالدار کے لئے حکومتوں میں حکم ہے کہ ان کو سزا نہ دی جائے اور اگر کوئی بے چارہ پکڑا جائے تو اس کو جوٹے پڑیں گے‘ اس سے مال الگ کمایا جائے گا‘ کیونکہ یہ اسلامی حکومت نہیں ہے۔ اگر اسلام ہوتا تو اسلام میں چھوٹے بڑے میں فرق نہیں ہے‘ کوئی بڑا آدمی غلطی کرنے والا ہو یا چھوٹا‘ قید دونوں کے لئے ایک جیسی‘ جیل دونوں کے لئے ایک جیسی۔ آپ کہیں بھی نہیں دیکھیں گے کہ کوئی آدمی کسی کو قتل کر دے تو اسے سزا مل رہی ہو‘ بلکہ یہاں تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے‘ اس لئے کہ بڑا آدمی ہے‘ یہ گورنر ہے‘ یہ جنرل ہے‘ یہ ڈاکٹر ہے اور اس پر ہزاروں روپے کا خرچہ ہوا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ اس کو مار دیا جائے‘ بظاہر یہ ڈاکو ہے‘ قاتل ہے‘ اچکا ہے اگر اس کو مار دیا جائے تو سوچا جا رہا ہے کہ کتنا نقصان ہو گا‘ انہیں خزانوں کی ضرورت ہے‘ انسانوں کی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انصاف نہیں ملتا)۔ لیکن علی(علیہ السلام )کیا کہہ رہے ہیں؟ جو شخص اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہے اور کسی کا حق چھینتا ہے‘ جب تک کمزور کا حق میں اس سے لے نہیں لوں گا‘ اس وقت تک وہ میرے لئے ذلیل ہو گا۔ جو اپنے آپ کو کمزور سمجھتا ہے‘ جب تک اس کا حق دے نہیں دوں گا‘ اس وقت میرے نزدیک طاقت ور ہو گا۔ مولا(علیہ السلام )کی مخالفت کیوں ہوئی؟ کیونکہ جتنے بڑے گروہ تھے‘ ان سب کو مولا(علیہ السلام )نے پکڑ لیا اور سب سے کہا کہ لوٹا ہوا مال بیت المال میں واپس جمع کراؤ۔ لوگ تمہیں دیتے رہے اور تم مالک بنتے رہے‘ جتنا مال بھی بیت المال سے غلط طریقے سے لیا گیا ہے‘ وہ سارے کا سارا مال واپس لوں گا‘ یہاں تک فرمایا: اگر کوئی لونڈی غلط طریقے پر دی گئی ہے اور اس کے بچے بھی پیدا ہو گئے ہیں‘ تب بھی وہ لونڈی لے کر واپس اصل مالک کو پہنچاؤں گا‘ اس آدمی کو حق نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے پاس رکھے۔ چنانچہ جن افراد کے مفادات پر ضرب پڑتی تھی‘ جن کے مفادات ضائع ہوتے تھے‘ انہوں نے مخالفت شروع کر دی‘ لیکن مولا(علیہ السلام )نے کسی مخالف کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور ان مخالفتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جس دین کی بقاء امام حسین(علیہ السلام )کی وجہ سے ہو رہی ہے‘ اس دین کی خاطر امام مظلوم(علیہ السلام )قربانی دے رہے ہیں‘ جس دین کو بچانے کے لئے سب کچھ امام(علیہ السلام )نے دے دیا۔ اب ظاہر ہے یہ چیزیں جو دین کی بلندی کا موجب بنتی ہیں‘ جس کی وجہ سے دین اتنی عظمت رکھتا ہے کہ حسین(علیہ السلام )جیسی ذات اپنی جان قربان کر رہی ہے۔ انسانیت کی عظمت کا نگہبان یہ دین ہے‘ عدالت اور عدالت کو انتہاء تک پہنچانے والا یہی دین اسلام ہے۔ مساوات کا درس دینے والا کہ تمام مخلوق کی عزت کرو‘ یہی دین ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ دین ہمیں آزادی اور عبدیت کا بھی درس دیتا ہے۔ جیسے ہمارے مولاحلال مشاکل امیرالمومنین(علیہ السلام )فرماتے ہیں: لا تکن عبد غیرک… اگر ہم اسی کو اصول بنا لیں۔ مولا(علیہ السلام )کے اسی فرمان پر عمل کریں‘ اسی ارشادِ مولا(علیہ السلام )پر چلنا شروع کر دیں‘ اپنی زندگی کا طور طریقہ اسی فرمان کے مطابق بنا لیں تو ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ مولا(علیہ السلام )کیا فرماتے ہیں: لا تکن عبد غیرک غیر کا غلام نہ بن کہ خدا نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے۔ تو غیر کے سامنے کیوں جھکتا ہے؟ مال و دولت کے سامنے کیوں جھکتا ہے؟ افسری‘ گورنری کے سامنے کیوں جھکتا ہے؟ اپنے نفس کے سامنے کیوں جھکتا ہے؟ اپنے ہاتھ سے کمائے ہوئے مال کے سامنے کیوں جھکتا ہے؟ یہ دولت‘ یہ مالِ دنیا‘ یہ جاگیر تیرے ہاتھ کی میل کچیل ہے‘ یہ آفیسر تیرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ گورنر تیرا کیا کر سکتا ہے؟ جب خدا تیرے حق میں ہے‘ خدا چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے‘ خدا نہ چاہے تو کچھ نہیں ہو سکتا‘پھر ان سے کیوں ڈرتا ہے؟ ان کا خوف تیرے دل میں کیوں ہے؟ خدا کے سامنے جھک جا۔ "اے انسان! میرا تیرے ساتھ یہ معاہدہ ہے کہ جو انسان میرے سامنے اس طرح جھک جائے‘ جس طرح جھکنے کا حق ہے تو میں علی کل شی قدیر اس کے سامنے پوری کائنات جھکا دوں۔" دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اجتماعی طور پر کمزور ہے؟ ہماری حکومتیں کمزور ہوتی ہیں۔ ہمارے دل میں یہ چیز راسخ ہو گئی ہے کہ جب تک ہم کسی بڑی سلطنت کا سہارا نہیں لیں گے‘ ان کے سامنے جھکیں گے نہیں‘ ان کی حمایت حاصل نہ کریں گے‘ ہماری سیاست ان کے تابع نہ ہو گی‘ اس وقت تک ہم زندہ نہیں رہیں گے۔ پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا… نتیجتاً ہم انسانیت کے لحاظ سے مردہ ہو چکے ہیں‘ ہم زندگی کے لحاظ سے مردہ ہو چکے ہیں‘ تہذیب کے لحاظ سے مردہ ہو چکے ہیں‘ تمدن کے لحاظ سے تباہ ہو چکے ہیں‘ ثقافت کے لحاظ سے برباد ہو چکے ہیں‘ ہمارے پاس غیروں کا لباس ہے‘ ہمارا اٹھنا بیٹھنا غیروں کی طرح ہے‘ جس طرح وہ کھاتے ہیں‘ اسی طرح ہم کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا کہ غیروں کی حکومت ہمارے اندر اس طرح راسخ ہو گئی ہے کہ ہم ہر حال میں ان کے غلام نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک پر ہمارا ہی بھروسہ نہ ہے‘ اپنے ملک کے مال و دولت پر بھروسہ نہیں ہے‘ بلکہ ہم ادھر کو جاتے ہیں‘ جہاں سے کچھ مل جائے اور جہاں سے کچھ نہیں ملتا ہے‘ ہم ادھر سے خاموش ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کیوں کریں گے۔ امریکہ جو چاہے کر لے‘ جس طرح چاہتا ہے ہمیں دباتا ہے‘ جو چاہتا ہے ہم سے منوا لیتا ہے‘ ہم تو بے چارے ہیں‘ نہ ہمارا کوئی خدا ہے‘ نہ ہمارا کوئی رسول ہے‘ نہ ہمارا کوئی علی(علیہ السلام )ہے‘ جو ہماری مدد کریں۔ بس! آس ہے‘ مسلم ممالک کو صرف اس سپر طاقت کی۔ سب مسلم ممالک امریکہ کے قبضے میں آ گئے ہیں‘ الا ماشاء اللہ ہم اس طرح غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور مظلوم کب تک ان امریکیوں اور یہودیوں کے دست نگر رہیں۔ حد یہ کہ ان کے سامنے ان کے نزدیک رسول اللہ(ع)کا نام نامی اسم گرامی مدد کے لئے لیں تو بدعت‘ شرک‘ کفر… جب یا رسول اللہ (ع)کا نام لینا بدعت ہے‘ تو یاعلی(علیہ السلام )مدد کہنا تو بالکل کفر ہو گا‘ ان کے نزدیک۔ بلکہ گناہ کبیرہ ہے ان کے نزدیک‘ لیکن یاعلی(علیہ السلام )مدد پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں پر ان یارسول اللہ کہنے پر شرک کا فتویٰ لگانے والوں پر خود مصیبت آ جائے‘ مشکل گھڑی آ جائے تو "یا امریکہ مدد" کہہ دیتے ہیں۔ رسول تو ان کی مدد نہیں کر سکتے‘ خدا تو ان کی مدد نہیں کر سکتا‘ لیکن عیسائی ان کی مدد کرتے ہیں‘ عیسائی انہیں بچا سکتے ہیں۔ یہ کیوں ہوا؟ کیونکہ ہم دین سے بیزار‘ اسلام کے اصولوں سے ناواقف۔ اگر ہم دین دار بن جائیں‘ اسلامی اصولوں کو سامنے رکھیں‘ جو ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے‘ ہمیں آزادی کا درس دیتا ہے اور جن لوگوں نے اسلامی اصولوں کو سامنے رکھا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ امریکہ رو سے بدتر ہے اور روس امریکہ سے بدتر ہے‘ نہ ہمیں امریکہ کا خوف ہے‘ نہ ہمیں روس کا ڈر ہے‘ کیوں؟ اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہو‘ اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
|