5 اگست شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 23 ویں برسی کے حوالے سے خصوصی تحریر
تحریر:ساجد حسین مثل شبیر جو پیام عمل دیتے ہیں ایسے ہی لوگ زمانے کو بدل دیتے ہیں 5 اگست ہر سال وحدت مسلمین کے علمبردار اور ملت اسلامیہ پاکستان کے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی برسی کا دن ہے۔ ان کو استعماری ایجنٹوں اور امریکی پٹھو حکمرانوں نے 5 اگست 1988ء کی صبح پشاور میں واقع انکی قائم کردہ درسگاہ جامعۃ المعارف الاسلامیہ (جو اس وقت جامعۃ الشہید عارف الحسینی کے نام سے موسوم ہے) میں نماز فجر کے وقت شہید کیا گیا۔ علامّہ شہید عارف حسینی کا دور قیادت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کے دور سے مطابقت رکھتا تھا۔ چنانچہ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے طویل جدوجہد کی۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں علماء کا اتنا مؤثر کردار نہیں تھا، لیکن شہید عارف حسینی نے اپنے ملک گیر دوروں، لانگ مارچ، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے (علامہ اقبال کے اس شعر: جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی" کے مصداق) اپنی قوم کو سیاست کی اہمیت کا احساس دلایا۔ اس سلسلے میں لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس قابل ذکر ہے۔ آپ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سیاسی و اجتماعی امور میں ہر مسلک، مکتب اور زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت کو ضروری سمجھتے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی نے پاکستان میں امریکی ریشہ دوانیوں کو نقش بر آب کرنے اور قوم کو سامراج کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے بھی موثر کردار ادا کیا۔ علامہ شہید عارف حسین حسینی اتحاد بین المسلمین کے عظیم علمبردار تھے، آپ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے شدید مخالف تھے، اس سلسلے میں آپ نے علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کی صفوں میں وحدت و یک جہتی کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ شہید علامہ سید عارف حسین حسینی کی ہمہ گیر شخصیت آپ کے مکتب میں فیض حاصل کرنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک کامل نمونے کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ صبر و حلم، زہد و تقوٰی، ایثار و فداکاری، شجاعت و بہادری اور حسن خلق جیسے اعلٰی انسانی صفات سے متصف عظیم انسان تھے۔ چنانچہ 5 اگست کو آپ کی شہادت کی خبر پاکستان بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اسلامیان پاکستان میں صف ماتم بچھ گئی اور عالم اسلام کے گوشے گوشے میں اس بھیانک قتل پر غم و اندوہ کا اظہار کیا گیا۔ شہید عارف سے بچھڑنے کا غم بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) پر بھی بہت گراں گذرا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا۔ "میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں۔" واقعاً! شہید عارف، امام خمینی (رح) کے روحانی فرزند تھے۔ آپ کو امام امّت سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، شہید عارف نے انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے نجف اشرف سے ہی اپنے مجتہد و ولی فقیہ امام انقلاب خمینی بت شکن سے فیض حاصل کیا تھا، شہید عارف انہی ایام میں نجف پہنچے تھے۔ جب امام خمینی (رح) جلا وطن ہو کر عراق پہنچے تھے۔ شہید ملّت اسلامیہ علامہ سید عارف حسین حسینی پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار سے 18 کلومیٹر مغرب کی جانب پاک افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں 25 نومبر 1946ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق پاراچنار کے معزّز سادات گھرانے سے تھا، جس میں علم و عمل کی پیکر کئی شخصیات نے آنکھیں کھولی تھیں۔ شہید عارف حسینی ابتدائی دینی و مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس میں زیرتعلیم رہے اور علمی پیاس بجھانے کے لئے 1967ء میں نجف اشرف روانہ ہوئے۔ نجف اشرف میں شہید محراب آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ حضرت امام خمینی (رح) سے متعارف ہوئے۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی (رح) کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ 1974ء میں شہید عارف حسین حسینی پاکستان واپس آئے۔ اور پھر ان کو واپس عراق جانے کی اجازت نہیں ملی تو قم کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے۔ قم میں آپ نے شہید آیت اللہ مطہری، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے اعلام سے کسب فیض کیا۔ آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینی (رح) کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے۔ چنانچہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای اور شہید آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے۔ شہید عارف حسینی کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ شاہی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار کیا۔ شہید عارف حسین حسینی 1977ء میں پاکستان واپس چلے گئے اور مدرسۂ جعفریہ پاراچنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دینا شروع کیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور امام خمینی (رح) کے انقلابی مشن کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ شہید عارف حسینی نے پاکستان کی مسلمان ملّت کو امریکی پٹھو اور ڈکٹیٹر ضیاء کے خلاف متحد و منظم کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کیں اور امریکہ اور ضیاء مخالف تحریک کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اگست 1983ء میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ شریف کی وفات کے بعد اپریل 1984ء میں پاکستان کے جیّد علماء و اکابرین کے مشورے پر علامہ شہید عارف حسینی کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں، انقلابی جذبات اور اعلٰی انسانی صفات کی بنا پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نیا قائد منتخب کیا گیا۔ رات کی تاریکیوں میں خداوند عالم سے راز و نیاز اور دن کو اسلام و مسلمین کی خدمت کا جذبہ آپ کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا، اس سلسلے میں آپ اپنے جد گرامی حضرت علی (ع) کی پیروی کرتے تھے۔ علامہ شہید ایک عظیم قائد، نڈر اور بے باک رہنما، پرخلوص اور جذبۂ خدمت سے سرشار ایک عالم باعمل انسان تھے۔ ان کی یاد تاریخ اور اسلام سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ بقول شاعر چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا آخر میں قارئین کے فیض کے لئے قائد شہید کے چند اقوال زرین درج کئے دیتا ہوں۔ شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی کے چند فرمودات: 1۔ کیا ہم نے اپنا مقصد متعین کیا ہے کہ ہم کس لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ ہم خدا کیلئے پیدا کئے گئے ہیں، سب چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں جبکہ انسان خدا کے لئے۔ 2۔ اگر آپ دل سے اللہ اکبر کہتے ہیں، تو پھر جب اللہ آپ کے ساتھ ہے تو کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جب اکبر، اللہ ہے، جب وہ بڑا ہے تو جو بھی اس بڑے کے مقابلے میں آئے گا وہ انسان کو چھوٹا اور حقیر نظر آئے گا، پھر ان کی نظر میں امریکہ اور روس و اسرائیل کیوں اتنے بڑے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بات ہو جائے تو یہ اپنے لحاف کے نیچے بھی امریکہ کہ خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 3۔ جس کا ارتباط خدا تعالٰی سے ہوتا ہے وہ امریکہ کو ایک چوہے کی مانند سمجھتا ہے، جیسے ایک چوہا اپنے سوراخ سے نکل کر آپ کو دھمکی دے تو کیا آپ اس چوہے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں !! اس لئے کہ آپ چوہے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ لہٰذا وہ لوگ جن کا رابطہ خدا سے ہوتا ہے وہ امریکہ جیسی طاغوتی طاقتوں کو چوہا بھی نہیں سمجھتے۔ 4۔ انبیاء کی تعلیمات کے نتائج اور اثرات ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر ایسا اثر کرتی ہیں کہ دنیا کی سب چیزوں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ حکماء اور فلاسفہ کا اثر لوگوں پر ہوتا ہے، لیکن وہ لوگوں کے دلوں پر تسلط پیدا نہیں کر سکتے جبکہ انبیاء ع لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ 5۔ جن کے پاس معنوی آزادی نہیں وہ اگر اجتماعی آزادی کی باتیں کرتے ہیں تو سوائے لوگوں کو بےوقوف بنانے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ جو چیز ہمارے لئے بہت ضروری ہے وہ مسلمانوں کا آپس کا اتحاد ہے، کیونکہ ہمارے دشمن امریکہ اور اسرائیل ہیں جو ہر جگہ مختلف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو سرکوب کرنا چاہتے ہیں۔ 6۔ نظام باطل، معاشرہ فاسد اور تربیتی اداروں میں تربیت کا کوئی پروگرام نہیں، اگر کوئی جوان دیندار اور حزب اللّہی نکلے تو یہ واقعی تعریف و ستائش کے لائق ہے۔ 7۔ مکتب اہل بیت ع میں ایمان، عقیدہ اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ 8۔ ایک اور بیماری جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے وہ ہے رشوت، انسان کا جائز و معمولی سا کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ 9۔ اسلامی جمہوریہ ایران جیسی حکومت جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کرہ ارض پر اگر کوئی حکومت ہے جس سے خدا و رسول راضی ہوں تو وہ ایران کی حکومت ہو سکتی ہے۔ 10۔ جولائی کو ہمارے شہید (محمد حسین شاد) نے اپنے خون کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں کہ شیعوں کے لیے پاکستان میں صرف اور صرف فقہ جعفریہ ہی نافذ ہو گی نہ کہ کوئی اور چیز۔ 11۔ مومن کبھی بھی شکست نہیں کھاتا، اس کی لغت میں ناکامی کا لفظ نہیں، وہ ہمیشہ کامیاب ہے، لہٰذا جو بھی مشکل آجائے اگر میدان میں ہے تو کہتا ہے، الٰہی تیری رضا میری رضا ہے۔ 12: میں (عارف حسین) اپنا گھر بار سب کچھ حتٰی کہ جان تک قربان کر سکتا ہوں، لیکن اسلام ناب محمدی اور نظریہ ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ نوشته شده توسط khial hussain
| لینک ثابت | آرشیو نظرات
5 اگست
Tue 5 Apr 2011 5:16 PM
5 اگست ملت اسلامیہ پاکستان کے شہید قائد اور وحدت مسلمین
کے علمبردا ===ر علامہ سید عارف حسین حسینی=== کی برسی ہے ۔ ان کو استعماری
ایجنٹوں نے 5 اگست 1988 ء کی صبح پشاور میں واقع اپنی درسگاہ مدرسۂ جامعۃ
المعارف الاسلامیہ میں نماز فجر کے وقت شہید کیا ۔ شہید عارف حسینی کی
شہادت کی خبر پاکستان بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اسلامیان پاکستان
میں صف ماتم بچھ گئی اور عالم اسلام کے گوشے گوشے میں اس بھیانک قتل پر غم
و اندوہ کا اظہار کیا گیا ۔ شہید عارف سے بچھڑنے کا غم بانی انقلاب اسلامی
حضرت امام خمینی (رح) پر بھی گراں گذرا چنانچہ آپ نے اپنے تعزیتی پیغام
میں لکھا : " میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوگیاہوں " واقعا" شہید عارف
امام خمینی (رح) کے روحانی فرزند تھے ، آپ کو امام امّت سے عشق کی حد تک
لگاؤتھا ، شہید عارف نے نجف اشرف سے ہی امام انقلاب خمینی بت شکن سے لو
لگالی تھی ، شہید عارف انہی ایام میں نجف پہنچے تھے جب امام خمینی (رح)
جلاوطن ہوکر عراق پہنچے تھے ۔ شہید ملّت اسلامیہ علامہ سید عارف حسین حسینی
پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار سے چند کلومیٹر
دور پاک افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں 25 نومبر 1946 ء کو پیدا ہوئے ۔
آپ کا تعلق پاڑہ چنار کے معزّز سادات گھرانے سے تھا ، جس میں علم و عمل کی
پیکر کئی شخصیات نے آنکھیں کھولی تھیں ۔ شہید عارف حسینی ابتدائی دینی و
مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس
میں زیرتعلیم رہے اور علمی پیاس بجھانے کے لئے 1967 ء میں نجف اشرف روانہ
ہوئے ۔ نجف اشرف میں شہید محراب آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ حضرت
امام خمینی (رح) سے متعارف ہوئے ۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی (رح) کے دروس
، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے ۔ 1974 ء میں شہید عارف حسین
حسینی پاکستان واپس آئے ، لیکن ان کو واپس عراق جانے نہیں دیا گیا تو قم
کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے ۔ قم میں آپ نے شہید آیت اللہ
مطہری ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے
اعلام سے کسب فیض کیا ۔ آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ
قم میں امام خمینی (رح) کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے
میں رہے چنانچہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور
شہید آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے ۔ شہید
عارف حسینی کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ شاہی خفیہ پولیس
ساواک نے گرفتار کیا ۔ شہید عارف حسین حسینی 1977 ء میں پاکستان واپس گئے
اور مدرسۂ جعفریہ پاڑہ چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں ، اس کے
علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ جب
1979 ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی
انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور امام خمینی (رح) کے انقلابی مشن
کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔شہید عارف حسینی نے پاکستان کی ملّت تشیّع کو
متحد و منظم کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے
قیام میں اہم کردار ادا کیا اگست 1983ء میں تحریک کے قائد علامہ مفتی جعفر
حسین کی وفات کے بعد 1984 ء میں پاکستان کے جیّد شیعہ علما و اکابرین کے
ایما پر علامہ شہید عارف حسینی کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں ، انقلابی جذبوں
اور اعلی انسانی صفات کی بناپر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نیا قائد منتخب
کیا گیا ۔ علامّہ شہید عارف حسینی کا دور قیادت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق
کی فوجی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جد و جہد کے دور سے مطابقت
رکھتاتھا ۔ چنانچہ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک
کی تقدیر بدلنے کے لئے طویل جد و جہد کی ۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں
اہل تشیع کا مؤثر کردار نہیں تھا ، لیکن شہید عارف حسینی نے اپنے ملک گیر
دوروں لانگ مارچ کے پروگراموں ، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین
اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے اپنی قوم کو سیاسی اہمیت کا احساس
دلایا ، اس سلسلے میں لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس قابل ذکر ہے ۔
آپ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سیاسی و اجتماعی امور میں ہر مسلک و مکتب
اور زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت کو ضروری سمجھتے تھے ۔ علامہ
عارف حسین حسینی نے پاکستان میں امریکی ریشہ دوانیوں کو نقش بر آب کرنے اور
قوم کو سامراج کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے بھی موثر کردار ادا کیا
۔ علامہ شہید عارف حسین حسینی اتحاد بین المسلمین کے عظیم علمبردار تھے ،
آپ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے شدید مخالف تھے ، اس سلسلے میں آپ نے
علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کی صفوں میں وحدت و یک جہتی کے لئے
گرانقدر خدمات انجام دیں ۔ شہید علامہ سید عارف حسین حسینی کی ہمہ گیر
شخصیت آپ کے مکتب میں فیض حاصل کرنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک کامل نمونے
کی حیثیت رکھتے تھی ، آپ صبر و حلم ، زہد و تقوی ، ایثار و فداکاری ،
شجاعت و بہادری اور حسن خلق جیسے اعلی انسانی صفات سے متصف عظیم انسان تھے ۔
رات کی تاریکیوں میں خداوند عالم سے راز و نیاز اور دن کو اسلام و مسلمین
کی خدمت کا جذبہ آپ کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا ، اس سلسلے میں آپ اپنے جد
گرامی حضرت علی (ع) کی پیروی کرتے تھے ۔ سامعین علامہ شہید سید عارف حسین
حسینی ایک عظیم قائد ، نڈر اور بےباک رہنما ، پر خلوص اور جذبۂ خدمت سے
سرشار انسان اور باعلم عالم دین تھے ، ان کی یاد تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے
گی ۔ آج علامہ شھید عارف حسینی کے نقش قدم پر چلتے ہویے مجلس وحدت مسلمین
پاکستان ایک بار پھر اسی سوچ اور فکر کو زندہ کرہی ہے جسے شھید عارف حسینی
نے پاکستان کی محب وطن شیعہ عوام کو دیا تھا
حضرت سید عارف حسین حسینی کی شہادتشھید سید عارف حسین حسینی 13 مرداد سن 1367 شمسی کو پارا چنار سے پشاور تشریف لاۓ اور رات " رسھ علمیھ دارلمعارف"میں بسر کی ۔ اگلی صبح 14 مرداد کو انہیں لاہور میں ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دینا تھا اور اس کے بعد ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران ایک اہم مسئلے کو لوگوں کو بتانا چاہتے تھے ۔ اسی جمعہ کی صبح جب وہ نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی غرض سے مدرسھ علمیھ دارلمعارف کی دوسری منزل کی طرف گۓ وضو کرنے کے بعد جب وہ واپس سیڑھیاں اتر رہے تھے تو اسی دوران نامعلوم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گۓ ۔ گولی لگنے کے بعد جب وہ زمین پر گر رہے تھے تو ان کے منہ سے لا الھ الا اللہ کی فریاد بلند ہوئی ۔ ایک عینی شاھد کا کہنا ہے کہ : " مجھے ابھی تک ان کے زمین پر گرنے کی وجہ معلوم نہ ہو پائی تھی ۔ میں دوڑ کر ان کے نزدیک ہوا تاکہ ان کو زمین سے اٹھاؤں لیکن جب میں نے انہیں زمین سے اٹھایا تو دیکھتا ہوں کہ ان کا سینہ اور منہ گولیوں کا نشانہ بن چکا ہے ۔ " واقعہ کی اطلاع پر مدرسہ کے طالب علم موقع پر پہنچ گۓ ۔۔ شھید عارف حسین حسینی کے بیٹے سید علی اور سید محمد حسینی جو اسی رات کو اپنے والد کے ہمراہ پارا چنار سے پشاور آۓ تھے ، وہ بھی روتے ہوۓ اپنے والد کے خون میں لت پت جسم کے قریب پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر طبی مرکز میں پہنچایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ بعد میں میڈیکل تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان پر چلائی جانے والی گولیاں زہریلی بھی تھی ۔ خدا انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ ۔ آمین !
|