خداوند عالم نے آنحضرت(ص) پر ایمان لانے کے علاوہ انسانوں پر رسول خدا کے متعلق کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی رکھی ہیں اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان فرائض اورذمہ داریوں کو بیان بھی کیا ہے ۔ یہاں پر رسول خدا(ص)کے متعلق صاحبان ایمان کی چند اہم انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو بیان کیا جاریا ہے :

رسول خدا کی بے چوں وچرا اطاعت وپیروی

ہر انسان کو الٰہی رہنمائوں بالخصوص نبی اکرم کی بے چون وچرا اطاعت کرنا چاہئے اور آپکے اوامر ونواہی چاہے وہ اجتماعی وسماجی امور سے متعلق ہوں یا ان کا تعلق انفرادی امورسے ہو انھیں بے چون وچرا قبول کرنااور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ قرآن کریم بعض مقامات پر تمام انسانوں کو مخاطب قرار دے کر انھیں رسول کی اطاعت وپیروی کا حکم دیتا ہے :

اطیعواللہ واطیعوالرسول. ﴿ سور ہ نور آیت ۴۵﴾
اے لوگو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔
اور بعض مقامات پر صاحبان ایمان کو اطاعت رسول (ص) کی دعوت دیتا ہے:  یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ٲَطِیعُوا اﷲَ وَٲَطِیعُوا الرَّسُولَ وَٲُوْْلِی الْْٲَمْْرِ مِنْْکُمْْ ﴿سورہ نسائ آیت ۹۵﴾
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت وپیروی کرو ۔
اطاعت رسول کا مطلب یہ ہے کہ آپ (ص)جس راستے پر چل رہے ہیں، وہی صراط مستقیم اور خدا کا راستہ ہے اور اسی راستے پر چلنا اور آپ کی اطاعت کرنا ہر ایک پر واجب ولازم ہے۔ قرآنی نقطے نظر سے رسول اکرم کی اطاعت ، خدا کی اطاعت ہے : من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔
جس نے رسول اکرم کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ۔   ﴿سورہ مائدہ آیت ۰۸ ﴾
اطاعت کا دائرہ بہت وسیع وعریض ہے، لہٰذا آپ کی اطاعت سے مراد ان تمام احکام وقوانین کی پیروی ہے جو آپ(ص) پر خدا کی جانب سے نازل ہوئے ہیں اور جس کاحکم رسول اکرم نے دیا ہے اور وہ وحی پروردگار کے مطابق ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے .
حضرت علی ں ارشاد فرماتے ہیں : میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں ، آپ(ص) نے ہمارے درمیان پر چم حق کو چھوڑا ہے جو اس سے آگے نکل گیا وہ دین سے خارج ہوگیا جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا اور جو اس کے ساتھ رہا وہ کامیاب ہوگیا ۔ ﴿نہج البلاغہ خطبہ ۰۰۱ ﴾
نیز ارشاد فرمایا : خدا کے نزدیک سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرے اور آپ(ص) کے نقش قدم پر چلے۔ ﴿نہج البلاغہ خطبہ ۰۶۱﴾
اجتماعی ذمہ داریاں
نبی اکرم کے متعلق صاحبان ایمان کی اہم ترین ذمہ داری کا تعلق آپ کی ولایت وامامت سے ہے۔ بے شک نبی کریم کا ایک بہت بڑا مقصد دینی حکومت کا قیام تھا جو غدیر خم میں مولائے کائنات حضرت علی ں کی ولایت وامامت کے اعلان کے ذریعہ پورا ہوا ۔
پروردگار عالم نے قرآن مجید میں اسی طرح کی مختلف ذمہ داریوں کو بیان فرمایا ہے منجملہ:
۱ ۔ نبی اکرم اور ائمہ معصومین ٪کی ولایت وامامت کو قبول کرنا .
رسول خدا سے متعلق ہماری پہلی اور سب سے بڑی ذمہ داری آپ کی ولایت ورہبری کو قبول کرنا ہے۔ قرآن کریم نے ولایت کو خدا ، رسول اور ائمہ اہل بیت کا حق قراردیاہے :
ِنَّمَا وَلِیُّکُمْْ اﷲُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْْ رَاکِعُونَ.
﴿مائدہ۵۵﴾
’’بے شک اللہ اوراسکے رسول تمھارے ولی ہیں اور وہ جو صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوت دیتے ہیں ‘‘
آنحضرت (ص) کی ولایت اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ پروردگار سے اسے خود مومنین کی اپنے اوپر ولایت سے زیادہ بر تر اور اہم قراردیاہے ۔ارشاد ہوتا ہے :
النَّبِیُّ ٲَوْْلَی بِالْْمُؤْْمِنِینَ مِنْْ ٲَنْْفُسِہِمْْ۔
﴿سورہ احزاب آیت ۶﴾
لہٰذا صاحبان ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حکم وارادہ پر نبی اکرم کے حکم وارادہ کو مقدم رکھیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے ائمہ معصومین ٪کی ولایت کا ایک حصہ قرار دیاہے اور ارشاد فرمایا ہے :
’’یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ٲَطِیعُوا اﷲَ وَٲَطِیعُوا الرَّسُولَ وَٲُوْْلِی الْْٲَمْْرِ مِنْْکُمْْ‘‘    ﴿سورہ نسائ آیت ۹۵﴾ 
اللہ، اس کے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ متعدد روایات کی روشنی میں یہاں پر ’’اولواالامر ‘‘سے مراد ائمہ معصومین علیہ السلام کی ذوات مقدسہ ہیں اور ان میں سب سے نمایاں فرد مولائے کائنات حضرت علیں کی ذات گرامی ہے۔
رسول خدا کے ایک صحابی بریدہ کا بیان ہے کہ میں یمن کی جنگ میں حضرت علی ں کے ساتھ تھا۔ مدینہ واپسی پر میں رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے حضور حضرت علیں کی برائی کی تو آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے فرمایا : اے بریدہ کیا میں تمام مومنین پر ان سے زیادہ اولی وبرتر نہیں ہوں ؟! میں نے عرض کیا بے شک .آپ(ص) نے فرمایا: پس میں جس کا مولا ہوں علی (ع) بھی اس کے مولی ہیں۔  ﴿تفسیرالدر المنثور ج۵ ص ۲۸۱﴾
۲۔ اجتماعی اختلافات اور جھگڑوں میں آپ(ص) کی طرف رجوع کرنا
خدا وندعالم نے متعدد مقامات پر مومنین کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی اور سماجی اختلافات اور جھگڑوں میں رسول خدا(ص) کی طرف رجوع کریں اور ایسے موارد میں آپ(ص) کی رفتار ،گفتار وکردار اور سیرت طیبہ کو اپنی ابدی سعادت کی راہ میں چراغ ہدایت قرار دیں ۔ ارشاد فرماتا ہے :
یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ٲَطِیعُوا اﷲَ وَٲَطِیعُوا الرَّسُولَ وَٲُوْْلِی الْْٲَمْْرِ مِنْْکُمْْ فَِنْْ تَنَازَعْْتُمْْ فِی شَیْْئٍ فَرُدُّوہُ ِلَی اﷲِ وَالرَّسُولِ ِنْْ کُنتُمْْ تُؤْْمِنُونَ بِاﷲِ وَالْْیَوْْمِ الْْآخِرِ .   ﴿سورہ نسائ آیت ۹۵ ﴾
اے ایمان والو ! اللہ ، اس کے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ اگر تم کسی چیز پر جھگڑا اور اختلاف کر بیٹھو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹادو اگر تم اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو  ۔
ایک آیت میں اختلافات اور جھگڑوں میں فیصلہ کے لئے رسول اعظم کی سنت کی طرف رجوع کرنے کو حقیقی ایمان کی ایک علامت قرار دیا گیاہے :
فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤْْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْْ ثُمَّ لاَیَجِدُوا فِی ٲَنفُسِہِمْْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْْلِیمًا. ﴿سورہ نسائ آیت ۵۶﴾
پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہر گز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں ۔
پروردگار نے اس آیت میں تین چیز کو حقیقی ایمان کی شرط قرار دیا ہے :
﴿۱﴾اختلافات اور جھگڑے کی صورت میں نبی اکرم (ص) کی طرف رجوع کرنا۔
﴿۲﴾پیغمبر اکرم کے فیصلہ پر خفگی اور دلتنگی کا اظہار نہ کرنا۔
﴿۳﴾رسول خدا کے فیصلہ پر راضی رہنااور سرتسلیم خم کردینا۔
لہٰذا اختلافات میں صرف آنحضرت (ص) کی طرف رجوع کرنا ہی مومنین کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ آپ کے فیصلے کو ماننا بھی واجب ولازم ہے۔ امام جعفرصادقں ارشاد فرماتے ہیں  : اگر کوئی قوم عبادت خدا کرے ، کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دے ، نماز ادا کرے ، زکات نکالے ،حج بیت اللہ کے لئے جائے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے ،لیکن وہ خدا، یا رسول خدا نے جو کام انجام دیئے ہیں ان میں چوں وچرا کرے اور کہے :اگر ایسا نہیں ہوتا تو زیادہ اچھا تھا تو اگر چہ وہ اس چون وچرا کو زبان پر نہ لائے بلکہ دل ہی میں رکھے تو وہ اتنی مقدار بھر مشرک ہوگئی ہے ۔
۳﴾ رسول خدا سے اجازت لینا
قرآن کی نظر میں ایسے اجتماعی اور سماجی مسائل جو جن میں ذمہ داریاں عمومی صورت اختیار کریں اور سب کی گردن پر آجائیں تو ایسی حالت میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ رسول خدا اور آپ(ص) کے جانشینوں کی اجازت کے بغیر میدان چھوڑ دے یا اپنی مرضی سے کوئی قدم اٹھائے۔ ارشاد فرماتا ہے : ِنَّمَا الْْمُؤْْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِہِ وَِذَا کَانُوا مَعَہُ عَلَی ٲَمْْرٍ جَامِعٍ لَمْْ یَذْْہَبُوا حَتَّی یَسْْتَٲْْذِنُوہُ. ﴿سورہ نور ۲۶ ﴾ مومنین صرف وہ افراد ہیں جو خدا ورسول پر ایمان رکھتے ہوں اور جب کسی اجتماعی کام میں مصروف ہوں تو اس وقت تک کہیں نہ جائیں جب تک اجازت حاصل نہ ہو جائے ۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ رسول خدا جب بھی مومنین کو جمع کرتے تھے تاکہ انھیں کسی کام یا جنگ کے لئے بھیجیں تو کچھ لوگ آپ (ص)سے اجازت لیئے بغیر وہاں سے ہٹ بڑھ جاتے تھے۔پروردگار نے اس آیت کے ذریعہ انہیں متوجہ کیا کہ آن حضرت کی اجازت کے بغیر کہیں نہ جائیں ۔
۴﴾ رسول اکرم کے ساتھ خیانت نہ کرنا 
صاحبان ایمان کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے ساتھ کسی بھی طرح کی خیانت نہ کریں : یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَخُونُوا اﷲَ وَالرَّسُولَ. ﴿ سورہ انفال آیت ۷۲﴾
ایمان والو !خدا ورسول کے بارے میں خیانت نہ کرو .
علامہ طبرسی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اللہ کے ساتھ خیانت سے مراد واجبات الٰہی کو ترک کرنا اور رسول اکر(ص)م کے ساتھ خیانت سے مراد آپ کی سنت وسیرت اور قوانین واحکام کو نظر انداز کردینا ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں دو واقعے ذکر ہوتے ہیں :
﴿۱﴾جب مسلمانوں نے رسول خدا (ص)کے حکم سے قبیلہ بنی قریظہ کے یہودیوں کا گھراؤ کرلیا تو انھوں نے صلح اور شام کوچ کرجانے کی تجویز پیش کی۔ رسول خدا نے قبول نہ فرمایا اور سعد بن معاذ کو فیصلہ کا ذمہ دار بنایا۔ سعد بن معاذ کے ساتھ ابولبابہ نامی ایک مسلمان ﴿جس کی یہودیوں سے پرانی دوستی تھی ﴾ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کر کے یہودیوں کو یہ سمجھا دیا کہ اگر وہ سعد کی حکمیت کو قبول کریں گے تو سب کے سب مارے جائیں گے .جبریل نے اس اشارہ کی اطلاع رسول خدا(ص) کو دے دی اس واقعہ کے بعد ابولبابہ نے اس خیانت کی وجہ سے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا اور سات دن تک کچھ بھی نہ کھایا پیا۔آخر کار خدا وندعالم نے ان کی تو بہ قبول کرلی ۔ ﴿تفسیر مجمع البیان ج۴ ص ۲۶۶ ﴾
اس شان نزول کی روشنی میں کبھی کبھی دشمن کے فائدے کے لئے ایک اشارہ بھی خیانت شمار ہوسکتا ہے لہذاجو چیزیں رسول اکرم اور دین اسلام کی توہین کا باعث بنتی ہیں صاحبان ایمان کو چاہیے کہ انھیں ترک کر دیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دشمن سوئ استفادہ کرے اور اس کی تقویت کا سبب ہو۔
﴿۳﴾ جنگ بدر میں کچھ مسلمانوں نے ابوسفیان کے پاس ایک خط لکھ کر اسے رسول خدا کے منصوبے سے باخبر کردیا۔ ابوسفیان نے مشرکین مکہ سے مدد کی درخواست کی اور ایک ہزار کا لشکر جنگ بدر کے لئے مدینہ کی جانب روانہ ہوگیا۔ ﴿تفسیر مجمع البیان ج ۴ ص ۳۶۶﴾
انفرادی ذمہ داریاں
انفرادی ذمہ داریوں سے مراد وہ امور ہیں جو سماجی سطح سے قطع نظر ہر فرد فرد سے متعلق ہیں اور ہر ایک پر فرداً فرداً ان پر عمل کرنا واجب ولازم ہے۔
تمام انبیائ اور اوصیائے الٰہی کی آمد کا مقصد انسان کو ظاہری اور باطنی، مادی اور معنوی رشد و کمال کی منزلوں تک پہونچانا اور ان کے نفسوں کو ہر طرح کی برائیوں اور آلودگیوں سے پاک وپاکیزہ بنا کر انھیں بشریت کی معراج پر لے جانا ہے۔ لہٰذا انسانوں کے لئے ایسے دلسوز ، شفیق اور مہربان رہنماؤں بالخصوص رسول خدا کے متعلق انسانوں کی کچھ اجتماعی ذمہ داریوں کے علاوہ کچھ انفرادی ذمہ داریاں بھی رکھی گئیں ہیں تاکہ ہر انسان بالخصوص صاحبان ایمان ان پر عمل کرتے ہوئے ایسے الٰہی رہنماؤں کی قدر و منزلت کو سمجھیں اور ان کی اطاعت کے پرتو میں پروردگار کی عبودیت و بندگی کی راہوں کو طے کریں جو ان کی خلقت کا مقصد ہے۔
نبی کریم کے متعلق صاحبان ایمان کی انفرادی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں ان میں سے بعض اہم ذمہ داریاں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ محبت نبی (ص) اور اہل بیت نبی (ص)
نبی کریم (ص) اور آپ کے اہل بیت اطہار (ع) کی محبت، ایمان کو مکمل کرنے والی ایک اہم شے ہے جیسا کہ رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایاہے: کسی مومن کا ایمان کامل نہ ہوگا سوائے یہ کہ میں اس کے نزدیک خود اس سے زیادہ محبوب ہوں اور میری عترت اس کی عترت سے زیادہ محبوب ہو۔
﴿بحار الانوار،ج۷۱،ص۳۱﴾
نیز ارشاد فرمایا: المرئ مع من احب. ﴿انسان اپنے محبوب کے ساتھ محشور ہوگا﴾   ﴿بحار الانوار،ج۷۱،ص۳۱﴾
البتہ محب سے مراد وہ ہے جواپنے آپ کو محبوب کے رنگ میں رنگ لے اور اس کی رفتار و کردار کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دینے کی کوشش کرے۔
محبت اہل بیت (ع) ایک بہت بڑی ذمہ داری اور اہم فریضہ ہے اسی لئے قرآن کریم نے اسے اجر رسالت کے عنوان سے مسلمانوں سے طلب کیا ہے: قُلْْ لاَٲَسْْٲَلُکُمْْ عَلَیْْہِ ٲَجْْرًا ِلاَّ الْْمَوَدَّۃَ فِی الْْقُرْْبَی ۔﴿سورۂ شوریٰ، آیت ۳۲﴾
آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اسکے کہ میرے اقربائ سے محبت کرو۔
دوسرے لفظوں میںاہل بیت ٪ سے محبت، رسول خدا (ص) سے محبت کا لازمہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر قابل تصور اور قابل قبول نہیں ہیں۔
۲۔ درود و صلوات بھیجنا
رسول خدا کے متعلق ہماری ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم آپ (ص) پر درود و صلوات بھیجیں۔ قرآن کریم نے نبی کریم پر مومنین کے درود و سلام کو خداوندعالم اور ملائکہ کے درود و سلام کی صف میں قرار دیا ہے اور مومنین کو حکم دیا ہے کہ وہ بھی مرسل اعظم پر درود و صلوات بھیجیں: ِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوا تَسْْلِیمًا۔ ﴿سورۂ احزاب، آیت۶۵﴾
حضرت علی - نے اس آیت کے بارے میںارشاد فرمایا: جب اس آیت کو حالت نماز یا کسی اور حالت میں سنو تو صلوات بھیجو۔        ﴿اصول کافی،ج۲،ص۲۹۴،ح۶﴾
امام جعفر صادق - نبی کریم پر دورد و سلام کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب بھی رسول خدا (ص)کا اسم گرامی لیا جائے توآنحضرت(ص) پر زیادہ سے زیادہ صلوات بھیجو، اس لئے جو شخص آپ(ص) پر ایک مرتبہ صلوات بھیجے گا خداوند عالم اور ملائکہ کی ایک ہزار صف اس پر صلوات بھیجے گی اور کوئی بھی مخلوق خدا باقی نہ رہ جائے گی مگر یہ کہ وہ بھی خدا اور ملائکہ کے صلوات کی وجہ سے اس پر صلوات بھیجے گی۔ پس اگر کوئی شخص ایسی رحمت کے حصول کی رغبت نہ رکھے تو وہ جاہل اور غافل ہے اور خدا، رسول(ص) اور اہل بیت (ع) اس سے بیزار ہیں۔
﴿اصول کافی، ج۲،ص۲۹۴،ح۵۱﴾
نیز ارشاد فرمایا: میزان اعمال میں کوئی چیز بھی محمد (ص) و آل محمد (ع) پر صلوات سے زیادہ وزنی نہیں ہے۔ روز قیامت ایک شخص کے اعمال کو میزان اعمال میں رکھیں گے تو وہ ہلکا ہوگا اور جب رسول خدا (ص) پر اس کے درود و سلام کو اس کے ترازو میں رکھا جائے گا تو وہ وزنی ہوجائے گا اور وہ اس کے برے اعمال پر بھارے پڑجائے گا۔ ﴿عدل الٰہی ،ص۰۴۲﴾
۳۔ توسل ﴿وسیلہ قرار دینا﴾
خداوند عالم نے گنہگارروں سے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول خدا (ص) کے دروازے پر آئیں اور آنحضرت(ع) سے درخواست کریں کہ وہ ان کے لئے استغفار اور طلب مغفرت فرمائیں: وَلَوْْ ٲَنَّہُمْْ ِذْْ ظَلَمُوا ٲَنفُسَہُمْْ جَائُوکَ فَاسْْتَغْْفَرُوا اﷲَ وَاسْْتَغْْفَرَ لَہُمْْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَحِیمًا.
﴿سورۂ نسائ، آیت۴۶﴾
اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پرظلم کیا تھا تو آپ(ص) کے پاس آئے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔
۴۔زیارت نبوی(ص)
جب کوئی شخص رسول اکرم کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ جاتا ہے تو لطف و رحمت پروردگار اس کے شامل حال ہوتی ہے اور رسول خدا خود اس پر سلام بھیجتے ہیں: وَِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْْ سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْْ.              ﴿سورۂ انعام،آیت۴۵﴾
اے میرے حبیب ! جب تمہارے پاس ہماری آیات اور نشانیوں پر ایمان لانے والے آئیں تو آپ (ص) ان سے کہئے: سلام علیکم۔
البتہ زیارت نبوی اور آپ(ص) سے توسل صرف آپ(ص) کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور مدینہ منورہ جانے اور آپ (ص) کی ظاہری زندگی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جب کبھی بھی صاحبان ایمان دور سے آپ(ص) کی زیارت کریں یا آپ (ص) کو بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دیں تو آپ (ص) کی نظر عنایت ان پر ہوگی۔ اس لئے کہ قرآن مجید صاف لفظوں میں اعلان کررہا ہے کہ رسول خدا مومنین بلکہ تمام انسانوں کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں: وَقُلْْ اعْْمَلُوا فَسَیَرَی اﷲُ عَمَلَکُمْْ وَرَسُولُہُ وَالْْمُؤْْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ ِلَی عَالِمِ الْْغَیْْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْْ بِمَا کُنتُمْْ تَعْْمَلُونَ۔﴿سورۂ توبہ، آیت۵۰۱﴾ پیغمبر (ص)! آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو اللہ، رسول اور صاحبان ایمان ﴿ائمہ طاہرین﴾ سب دیکھ رہے ہیں۔
۵۔ رعایت ادب
پروردگار عالم نے مسلمانوں کو اپنے حبیب سے گفتگو کرنے کا ادب و سلیقہ بھی سکھایا ہے اور بتایا ہے کہ انھیں کوئی معمولی انسان نہ سمجھنا۔ لہٰذا ان کی آواز پر آواز بلند نہ کرنا کیونکہ یہ میرے حبیب کی شان میں گستاخی اور جسارت ہے جس کا نتیجہ تمہارے نیک اعمال کی بربادی بھی ہوسکتا ہے، ارشاد فرمایا: یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْْفَعُوا ٲَصْْوَاتَکُمْْ فَوْْقَ صَوْْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْْہَرُوا لَہُ بِالْْقَوْْلِ کَجَہْْرِ بَعْْضِکُمْْ لِبَعْْضٍ ٲَنْْ تَحْْبَطَ ٲَعْْمَالُکُمْْ وَٲَنْْتُمْْ لاَتَشْْعُرُونَ۔ ﴿سورۂ حجرات، آیت۲﴾
ایمان والو! خبردار اپنی آواز کو نبی(ص) کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آوازمیں بات بھی نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔
اس گستاخی اور جسارت کے نتیجہ میں نیک اعمال کا ضائع و برباد ہوجانا صرف آپ (ص) کی ظاہری اور دنیاوی حیات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ(ص) کے جوار مطہر میں بھی بلند آواز سے بات نہیں کرنا چاہئے۔
ائمہ اطہار (ع) جو رسول خدا کے حقیقی جانشین ہیں انھیں بھی یہی مقام و منزلت حاصل ہے اور ان کا بھی یہی حکم ہے نیز آپ(ص) کی ذریت کا احترام بھی ہمارے اوپر واجب و لازم ہے۔
نیز پروردگار عالم نے مومنین کو نبی کریم سے آگے بڑھ جانے سے بھی منع کیا ہے: یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ اﷲِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ۔
﴿سورۂ حجرات،آیت۱﴾
اے صاحبان ایمان ! کسی کام میں بھی خدا اور اس کے رسول(ص) سے آگے نہ بڑھ جاؤ۔
اللہم صل علیٰ محمد و آل محمد
ظظظ

+ نوشته شده در  2012/2/6ساعت 14:55  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  |