”ابوداود“ ، ”خالد“ سے نقل کرتا ہے : ”مقدام بن معدی کرب“، عمرو بن اسود اور قنسرین کا رہنے والا بنی اسد سے ایک شخص معاویہ کے پاس آئے۔ معاویہ نے مقدام سے کہا : کیا تمہیں خبر ہے کہ حسن بن علی(علیہ السلام)کا انتقال ہوگیاہے؟ مقدام نے کہا : انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک شخص(۱) نے اس سے کہا: کیا تم اس کو مصیبت سمجھتے ہو؟ مقدام نے کہا : ولم لا اراھا مصیبة، و قد وضعہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ )فی حجرہ، فقال : ھذا منی و حسین من علی“۔ میں اس کو مصیبت کیوں نہ سمجھوں جب کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کواپنی آغوش میںلیتے تھے اور فرماتے تھے: یہ میرا فرزند ہے اور حسین ، علی کا فرزند ہے۔ وہ شخص جو بنی اسد سے تھا اس نے کہا : جمرة اطفاھا اللہ عز و جل۔ بھڑکتی ہوئی ایک آگ تھی جس کو خدا نے خاموش کردیا۔ مقدام نے کہا : آج میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک تجھے ناراض نہ کردوں اور ایسی بات کہوں گا جو تجھے اچھی نہیں لگے گی، اس کے بعد کہا : اے معاویہ! اگر میں سچ کہوں تو اس کی تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ بولوں تو مجھے جھٹلانا۔ معاویہ نے کہا : ٹھیک ہے۔ مقدام بولے : تجھے خدا کی قسم ! کیا تو نہیں جانتا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حریر کا لباس پہننے کو منع کیا ہے؟ معاویہ نے جواب دیا : جی بالکل پیغمبر نے منع کیا ہے۔ پھر مقدام نے کہا : کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسول خدا نے سونا پہننے کو منع کیا ہے؟ معاویہ نے کہا: ہاں مجھے معلوم ہے۔ پھر اس نے کہا : تجھے خدا کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کہ کیا تجھے نہیں معلوم کہ رسول خدا نے وحشی جانوروں کی کھال کے لباس کو پہننے اور ان کے اوپر سوار ہونے کو منع کیا ہے؟ معاویہ نے کہا : مجھے معلوم ہے ۔ پھر مقدام نے کہا : خدا کی قسم اے معاویہ! میں نے یہ تمام چیزیں تیرے گھر میں دیکھی ہیں۔ معاویہ نے کہا : مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تم سے مجھے کبھی چھٹکارا نہیں مل سکتا(۲)۔ اہل سنت کے بزرگ موٴرخین کی ایک جماعت نے معاویہ کی طبیعت، شراب نوشی کی طرف مائل ہونے کے واقعہ کو ایک تعجب خیز تاریخی واقعہ کے ضمن میں اس طرح نقل کیا ہے: عثمان کی خلافت کے دورمیں جب معاویہ شام کا گورنراور عبدالرحمن بن سہیل انصاری فوج کا کمانڈر تھا ۔ اس زمانے میں شراب سے لدا ہوا ایک قافلہ عبدالرحمن کے پاس سے گذرا اور وہ ساری شراب معاویہ کی تھی یہ دیکھ کر عبدالرحمن نے نیزہ اٹھا کر اونٹوں کے اوپر حملہ کردیا، قافلہ کے محافظ غلاموں نے اس کا مقابلہ کیا اور اس کی خبر معاویہ کو پہنچا دی ۔ معاویہ نے حکم دیا کہ عبدالرحمن سے مقابلہ نہ کرو کیونکہ اس کی عقل خراب ہوگئی ہے ۔ عبدالرحمن نے اس کے جواب میں کہا : ہرگز ایسا نہیں ہے ۔ خدا کی قسم میری عقل صحیح و سالم ہے ۔ میں نے اس قافلہ پر حملہ اس لئے کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے ہمیں شراب سے منع کیا ہے ۔ خدا کی قسم اگر میں زندہ رہا اورمعاویہ کا وہ دردناک واقعہ جس کی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے پیشین گوئی کی تھی، میرے سامنے رونما ہوا تو میں اس کے پیٹ کو پھاڑ دوں گا یا اس راہ میں شہید ہوجاؤں گا(3)۔(4) 1 ـ مسند احمد 4 : 130 [5/118 ، ح 16738] پر: « کلمه «رجل» کے بجائے معاویه کا نام بیان هوا هے. اور اس طرح آیا هے : «فقال له معاویة : أتراها مصیبة؟» ; ابو داود کی امانتداری کو دیکهو که اس نے معاویه کےنام کو هٹا کر اس کی جگه کلمه رجل کو رکه دیا هے ! 2 ـ سنن أبی داود 2 : 186 [4/68 ، ح 4131] . 3 ـ اسد الغابه، ج 3، ص 299; ابن حجر، الاصابه، ج 2، ص 401; تهذیب التهذیب، ج 6، ص 192. 4 ـ شفیعی شاہرودی، الغدیر سے منتخب اشعار ، ص 994.
|