قائد انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي کے والد حجت الاسلام والمسلمين حاج سيد جواد حسيني خامنہ اي مرحوم تھے. قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي اٹھائيس صفر تيرہ سو اٹھاون ہجري قمري کو مشہد مقدس ميں پيدا ہوئے. آپ اپنے خاندان کے دوسرے فرزند تھے. آپ کے والد سيد جواد خامنہ اي کي زندگي ديني علوم کے ديگر اساتذہ اور علمائے دين کي مانند انتہائي سادہ تھي.ان کي شريک حيات اور اولاد نے بھي قناعت اور سادہ زندگي گزارنے کے گہرے معني ان سے سيکھے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے. قائد انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي اپني اور اپنے اہل خانہ کي زندگي اور حالات کے بارے ميں اپني بچپن کي يادوں کو بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ميرے والد ايک مشہور عالم دين تھے ليکن بہت ہي پارسا اور گوشہ نشين ... ہماري زندگي تنگ دستي ميں بسر ہوتي تھي مجھے ياد ہے کہ بعض اوقات ايسا بھي ہوتا تھا کہ ہمارے گھر ميں رات کا کھانا نہيں ہوتا تھا اور ہماري والدہ بڑي مشکل سے ہمارے ليے کھانے کا بندوبست کرتي تھيں اور ... وہ رات کا کھانا بھي کشمش اور روٹي ہوتي تھي. ليکن جس گھر ميں سيد جواد کا خاندان رہتا تھا اس کے بارے ميں قائد انقلاب اسلامي کچھ يوں بيان کرتے ہيں : ميرے والد صاحب کا گھر کہ جہاں ميري پيدائش ہوئي اور ميرے بچپن کے چار پانچ سال وہيں گزرے ، ساٹھ ستر ميٹر کا ايک گھر تھا جو مشہد کے ايک غريب علاقے ميں واقع تھا اس گھر ميں صرف ايک ہي کمرہ اور ايک تنگ و تاريک سرداب(تہہ خانہ)تھا جب کوئي مہمان ہمارے والد سے ملنے کے ليے آتا ہمارے والد چونکہ عالم دين تھے اس ليے عام طور پر لوگ ان سے ملنے کے ليے آتے تھے تو ہم سب گھر والوں کوسرداب( تہہ خانہ ) ميں جانا پڑتا اور مہمان کے جانے تک وہيں پر رہتے بعد ميں ميرے والد کے کچھ عقيدت مندوں نے ہمارے گھر کے ساتھ والي زمين خريد کر ميرے والد صاحب کو دے دي اور پھر ہمارا گھر تين کمروں کا ہو گيا. قائد
انقلاب اسلامي نے ايک غريب ليکن ديندار ، پاکيزہ اور علم دوست گھرانے ميں
تربيت پائي اور چار سال کي عمر ميں اپنے بڑے بھائي سيد محمد کے ہمراہ مکتب
بھيج ديے گئے تا کہ قرآن پڑھنا سيکھ ليں اس کے بعد دونوں بھائيوں نے تازہ
قائم ہونے والے اسلامي اسکول دارالتعليم ديانتي ميں ابتدائي تعليم حاصل کي مشهد کی ديني درسگاہ ميں آپ ہائي اسکول کے بعد ديني درسگاہ ميں داخل ہو گئے اور اپنے والد اور اس وقت کے ديگر اساتذہ سے عربي ادب اور مقدمات(قواعد) کي تعليم حاصل کي آپ ديني درسگاہ ميں داخلے اور ديني تعليم کے انتخاب کے محرک کے بارے ميں کہتے ہيں: اس نوراني راستے کے انتخاب ميں بنيادي عنصر اور محرک ميرے والد کا عالم دين ہونا تھا اور ميري والدہ کي خواہش تھي آپ نے جامع المقدمات ، سيوطي اور مغني کي مانند عربي ادب کي کتابيں مدرسہ سليمان خان اور مدرسہ نواب کے اساتذہ سے پڑھيں اور آپ کے والد بھي اپنے بچوں کي تعليم پر نظر رکھتے تھے اسي دوران آپ نے کتاب معالم بھي پڑھي اس کے بعد آپ نے شرائع الاسلام اور شرح لمعہ اپنے والد سے اور ان کے بعض حصے آقا ميرزا مدرس يزدي مرحوم سے پڑھے اور رسائل و مکاسب حاج شيخ ہاشم قزويني سے اور فقہ و اصول کے دروس سطح اپنے والد سے پڑھے آپ نے حيرت انگيز طور پر صرف ساڑھے پانچ سال کے عرصے ميں مقدمات اور سطح کے کورس مکمل کر لیا تها آپ کے والد سيد جواد مرحوم نے ان تمام مراحل ميں اپنے چہيتے بيٹے کي ترقي و پيشرفت ميں اہم کردار ادا کيا. قائد انقلاب اسلامي نے منطق اور فلسفہ ميں کتاب منظومہ سبزواري پہلے آيت اللہ ميرزا جواد آقا تہراني مرحوم اور بعد ميں شيخ محمد رضا ايسي سے پڑھي نجف اشرف کي ديني درسگاہ ميں حضرت
آيت اللہ العظمي خامنہ اي ، کہ جنہوں نے اٹھارہ سال کي عمر ميں مشہد ميں
عظيم مرجع آيت اللہ العظمي ميلاني مرحوم سے فقہ اور اصول کا درس خارج پڑھنا
شروع کيا تھا، سن 1957 ميں مقدس مقامات کي زيارت کے ليے نجف اشرف تشريف لے
گئے اور سيد محسن حکيم مرحوم،سيد محمود شاہرودي ، ميرزا باقر زنجاني ، سيد
يحيي ، يزدي اور ميرزا حسن بجنوردي سميت نجف اشرف کے عظيم مجتہدين کے دروس
ميں شرکت کي آپ کو يہاں درس و تدريس اور تحقيق کا معيار پسند آيا اور نجف
ميں تعليم جاري رکھنے کے اپنے فيصلے سے اپنے والد کو آگاہ کيا ليکن وہ راضي
نہ ہوئے چنانچہ آپ کچھ عرصے کے بعد مشہد واپس لوٹ آئے قم کي ديني درسگاہ ميں حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ سن 1958 سے لے کر سن 1964 تک قم کي ديني درسگاہ ميں فقہ، اصول اور فلسفہ کي اعلي تعليم ميں مشغول رہے اور آيت اللہ العظمي بروجردي، امام خميني رحمت اللہ عليہ ، شيخ مرتضي حائري يزدي اور علامہ طباطبائي جيسے عظيم اساتذہ سے کسب فيض کيا. 1964 ميں قائد انقلاب اسلامي کو اپنے والد سے خط و کتابت کے بعد پتہ چلا ان کے والد کي ايک آنکھ کي بينائي موتيا کے مرض کي وجہ سے جا چکي ہے آپ کو يہ خبر سن کر بہت دکھ پہنچا آپ قم کي عظيم درسگاہ ميں رہ کر اپني تعليم کو جاري رکھنے اور مشہد واپس جا کر اپنے والد کي ديکھ بھال کرنے کے سلسلے ميں شش و پنج کا شکار ہو گئے حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي اس نتيجے پر پہنچے کہ انہيں اللہ کي رضا کيلیے مشہد واپس جانا چاہيے اور اپنے والد کي ديکھ بھال کرني چاہيے اس بارے ميں آپ فرماتے ہيں: ميں مشہد گيا اور خدا نے مجھے بہت زيادہ توفيقات عنايت فرمائيں بہرحال ميں اپنے کام اور ذمہ داريوں ميں مشغول ہوگيا اگر مجھے زندگي ميں کوئي توفيق حاصل ہوئي ہے تو ميرا يہ خيال ہے کہ وہ اس نيکي کا صلہ ہے جو ميں نے اپنے والد اور والدہ کے ساتھ کي تھي حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے اس دو راہے پر صحيح راستے کا انتخاب کيا آپ کے بعض اساتذہ اور ساتھي افسوس کرتے تھے کہ کيوں آپ نے اتني جلدي قم کو چھوڑ ديا اگر وہ وہاں رہ جاتے تو آئندہ يہ بن جاتے وہ بن جاتے... ليکن مستقبل نے ظاہر کر ديا کہ ان کا فيصلہ صحيح تھا اور الہي فيصلے نے لوگوں کے اندازوں سے کہيں بہتر ان کي تقدير لکھي تھي کيا کوئي يہ سوچ سکتا تھا کہ يہ پچيس سالہ باصلاحيت عالم دين جو اپنے والدين کي خدمت کے ليے قم چھوڑ کر مشہد واپس چلا گيا تھا، پچيس سال بعد ولايت امر مسلمين کے اعلي مقام و مرتبے پر پہنچ جائے گا آپ نے مشہد ميں بھي اپني اعلي تعليم کا سلسلہ جاري رکھا اور تعطيلات،جدوجہد،جيل اور سفر کے علاوہ 1968 تک مشہد کے عظيم اساتذہ خصوصا آيت اللہ ميلاني سے با قاعدہ طور پر تعليم حاصل کي اسي طرح سن 1964 سے کہ جب آپ مشہد ميں مقيم تھے ، تعليم حاصل کرنے اور بوڑھے اور بيمار والد کي ديکھ بھال اور خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نوجوان طلبہ کو فقہ و اصول اور ديني علوم کي ديگر کتابيں بھي پڑھاتے تھے۔ سياسي جدوجہد حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي بقول خود ان کے، امام خميني رحمت اللہ عليہ کے فقہي ، اصولي ،سياسي اور انقلابي شاگردوں ميں سے ہيں ليکن ان کے ذہن ميں طاغوت کے خلاف دشمني اور سياست و جدوحہد کي پہلي کرن عظيم مجاہد اور شہيد راہ اسلام سيد مجتبي نواب صفوي نے ڈالي۔ جب نواب صفوي چند فدائيان اسلام کے ساتھ سن 1952 ميں مشہد گئے تو انہوں نے مدرسہ سليمان خان ميں احيائے اسلام اور احکام الہي کي حاکميت کے موضوع پر ايک ولولہ انگيز تقرير کي اور شاہ اور برطانيہ کے مکر و فريب اور ملت ايران سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کيا حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي ان دنوں مدرسہ سليمان خان کے نوجوان طالب علم تھے، نواب صفوي کي جوشيلي تقرير سے آپ بہت متاثر ہوئے آپ کہتے ہيں:اسي وقت نواب صفوي کے ذريعے ميرے اندر انقلاب اسلامي کا جھماکہ ہوا چنانچہ مجھے اس بات ميں کوئي شک و شبہ نہيں ہے کہ پہلي آگ نواب صفوي مرحوم نے ميرے اندر روشن کي۔ امام خميني رحمت اللہ عليہ کي تحريک کے ہمراہ حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي سن 1962 سے کہ جب آپ قم ميں تھے اور محمد رضا شاہ پہلوي کي اسلام مخالف اور امريکہ نواز پاليسيوں کے خلاف امام خميني کي انقلابي اور احتجاجي تحريک شروع ہوئي ، سياسي جدوجہد ميں شامل ہو گئے اور بے پناہ نشيب و فراز ، جلاوطني ، قيد و بند اور ايذاؤں کے باوجود سولہ سال تک جدوجہد کرتے رہے اور کسي مقام پر بھي نہيں گھبرایے امام خميني رحمت اللہ عليہ نے انہيں پہلي ذمہ داري يہ سونپي کہ وہ ماہ محرم ميں علمائے کرام کے تبليغي مشن اور شاہ کي امريکي پاليسيوں کو آشکارہ کريں، ايران کے حالات اور قم کے واقعات کے بارے ميں ان کا پيغام آيت اللہ ميلاني اور خراسان کے علماء تک پہنچائيں آپ نے يہ ذمہ داري بخوبي نبھائي اور خود بھي تبليغ کے ليے بيرجند شہر گئے اور وہاں تبليغ کے ضمن ميں امام خميني رحمت اللہ عليہ کے پيغام کے تناظر ميں پہلوي حکومت اور امريکہ کا پردہ چاک کيا چنانچہ آپ کو گرفتار کر ليا گيا اور ايک رات قيد رکھنے کے بعد اگلے دن آپ کو اس شرط پر رہا کيا گيا کہ آپ منبر پر نہيں جائيں گے اور پوليس کي نگراني ميں رہيں گے پندرہ خرداد کے واقعے کے بعد آپ کو بيرجند سے مشہد لاکر فوجي جيل ميں ڈال ديا گيا اور وہاں دس روز تک کڑي نگراني ميں رکھا گيا اور سخت ايذائيں دي گئيں۔ دوسري گرفتاري جنوري سن 1963 مطابق رمضان تيرہ سو تراسي ہجري قمري کو حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ ايک طے شدہ پروگرام کے تحت کرمان گئے کرمان ميں دو تين دن ٹھہرنے ،تقريريں کرنے اور اس شہر کے علماء اور طلبہ سے ملاقات کرنے کے بعد زاہدان چلے گئے آپ کي جوشيلي اور ولولہ انگيز تقريروں خصوصا چھ بہمن کو شاہ کے جعلي ريفرنڈم اور انتخاب کي سالگرہ کے دن آپ کي تقرير کو عوام نے بے حد پسند کيا پندرہ رمضان کو امام حسن عليہ السلام کي ولادت کے روز پہلوي حکومت کي شيطاني اور امريکي پاليسيوں کا پردہ چاک کرنے والي آپ کي جوشيلي اور ولولہ انگيز تقريريں اپنے عروج پر پہنچ گئيں چنانچہ شاہ کي خفيہ ايجنسي ساواک نے آپ کو راتوں و رات گرفتار کر کے ہوائي جہاز کے ذريعے تہران روانہ کر ديا رہبر بزرگوار حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کو تقريبا دو ماہ تک قزل قلعہ نامي جيل ميں قيد تنہائي ميں رکھا گيا دوران قيد آپ نے مختلف قسم کي ايذائيں اور توہين آميز سلوک برداشت کيا۔ تيسري اور چوتھي گرفتارياں مشہد اور تہران ميں آپ کے تفسير و حديث کے دروس اور اسلامي افکار و نظريات کا انقلابي نوجوانوں نے زبردست خيرمقدم کيا آپ کي ان سرگرميوں سے شاہ کي خفيہ ايجنسي ساواک بھڑک اٹھي اور آپ کو گرفتار کرنا چاہا لہذا آپ نے سن 1966 ميں تہران ميں روپوشي کي زندگي اختيارکرلي تاہم ايک سال بعد يعني 1967 ميں آپ گرفتار کر ليے گئے رہائي کے بعد آپ کي انقلابي سرگرميوں کے باعث ساواک نے آپ کو ايک بار پھر سن 1970ميں گرفتار کر کے جيل ميں ڈال ديا۔ پانچويں گرفتاري حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي مدظلہ العالي ساواک کے ہاتھوں اپني پانچويں گرفتاري کے بارے ميں لکھتے ہيں: سن 1969 سے ايران ميں مسلح تحريک کے آثار محسوس کيے جا رہے تھے خفيہ اداروں کي ميرے بارے ميں حساسيت بھي بڑھ گئي تھي انہوں نے اندازہ لگا ليا تھا کہ ايسا نہيں ہو سکتا کہ اس قسم کي تحريک کا مجھ جيسے افراد سے تعلق نہ ہو سن 1971 ميں ايک بار پھر مجھے جيل ميں ڈال ديا گيا جيل ميں ساواک کے تشدد آميز سلوک سے واضح طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ اسے مسلح تحريک کے اسلامي فکر کے مراکز سے جڑے ہونے پر سخت تشويش ہے اور وہ اس بات کو قبول کرنے پر تيار نہيں تھے کہ مشہد اور تہران ميں ميرے نظرياتي اور تبليغي مشن کا اس تحريک سے کوئي تعلق نہيں ہے رہائي کے بعد ميرے تفسير کے عام دروس اور خفيہ کلاسوں کا دائرہ مزيد بڑھ گيا چھٹي گرفتاري 1971 اور 1974 کے برسوں کے دوران حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کے تفسير اور انقلابي نظريات کے دروس اور تقارير مشہد مقدس ميں واقع مسجد کرامت ، مسجد امام حسين اور مسجد ميرزا جعفر ميں انجام پاتي تھيں جن ميں انقلابي اور روشن فکر نوجوانوں اور طلبہ سميت ہزاروں لوگ جوق در جوق شرکت کرتے تھے اور اسلام کے حقيقي نظريات سے آگاہ ہوتے تھے۔ آپ کے نہج البلاغہ کے درس کا رنگ ہي کچھ اور تھا آپ کے نہج البلاغہ کے دروس فوٹو کاپي ہو کر لوگوں ميں تقسيم ہوتے تھے نوجوان اور انقلابي طلبہ جو آپ سے درس حقيقت اور جدوجہد کا سبق ليتے تھے ، ايران کے دور و نزديک کے شہروں ميں جا کر لوگوں کو ان نوراني حقائق سے آشنا کرکے عظيم اسلامي انقلاب کا راستہ ہموار کرتے ان سرگرميوں کے باعث 1974عيسوي ميں ساواک نے مشہد ميں حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کے گھر پر دھاوا بول ديا اور آپ کو گرفتار کر کے آپ کي بہت سي تحريروں اور نوٹس کو ضبط کر ليا يہ آپ کي چھٹي اور سخت ترين گرفتاري تھي آپ کو 1975 کے موسم خزاں تک قيد ميں رکھا گيا اس عرصے کے دوران آپ کو ايک کوٹھڑي ميں سخت ترين حالات ميں رکھا گيا اور خود آپ کے بقول صرف وہي ان حالات کو سمجھ سکتے ہيں جنہوں نے ان حالات کو ديکھا ہے جيل سے رہائي کے بعد آپ مشہد مقدس واپس آ گئے اور ماضي کي طرح علمي ، تحقيقي اور انقلابي عمل کو آگے بڑھايا البتہ آپ کو پہلے کي طرح کلاسوں کي تشکيل کا موقع نہيں ديا گيا شہر بدري ظالم پہلوي حکومت نے سن 1977 کے اواخر ميں حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کو گرفتار کر کے تين سال کے ليے ايرانشہر شہر بدر کر ديا۔ سن 1978 کے وسط ميں ايران کے مسلمان اور انقلابي عوام کي جدوجہد کے عروج پر پہنچنے کے بعد آپ شہر بدري سے آزاد ہو کر مشہد مقدس واپس آ گئے اورسفاک پہلوي حکومت کے خلاف عوام کي جدوجہد کي اگلي صفوں ميں شامل ہو گئے ۔ راہ خدا ميں انتھک جدوجہداور سختياں برداشت کرنے کا نتيجہ يعني ايران کے عظيم اسلامي انقلاب کي کاميابي اور ظالم پہلوي حکومت کا سقوط اور اس سرزمين ميں اسلام کي حاکميت کے قيام کا مشادہ آپ نے اپني آنکھوں سے کيا کاميابي سے قبل اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل امام خميني رحمت اللہ عليہ کي پيرس سے تہران واپسي سے پہلے ان کي طرف سے شہيد مطہري، شہيد بہشتي، ہاشمي رفسنجاني وغيرہ کي مانند مجاہد علما اور افراد پر مشتمل کميٹي شورائ انقلاب اسلامي قائم کي گئي حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي بھي امام خميني رحمت اللہ عليہ کے حکم پر اس کميٹي کے رکن بنے شہيد مطہري نے امام خميني رحمت اللہ عليہ کا پيغام آپ تک پہنچايا رہبر کبير انقلاب اسلامي امام خميني رحمت اللہ عليہ کا پيغام ملتے ہي آپ مشہد سے تہران آ گئے۔ کاميابي کے بعد حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے اسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد بھي اپني انقلابي اور اسلامي سرگرمياں بدستور جاري رکھيں اس دوران آپ مختلف عہدوں پر فائز رہے اور متعدد اہم کارنامے انجام دينے ميں کامياب ہوئے جس کي تفصيل کچھ يوں ہے۔ فروري 1979 ميں اپنے ہم خيال مجاہد علماء اور ساتھيوں کے تعاون سے جمہوري اسلامي پارٹي کي بنياد رکھي 1979 ميں نائب وزيردفاع بنے 1979ميں ہي پاسداران انقلاب اسلامي فوج کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 1979ميں ہي باني انقلاب اسلامي کي جانب سے دارالحکومت تہران کے امام جمعہ منصوب ہوئے 1980 ميں اعلي دفاعي کونسل ميں امام خميني رحم? اللہ عليہ کے نمائندےمقرر ہوئے 1979 ميں پارليمنٹ مجلس شوراي اسلامي ميں تہران کے نمائندے بنے 1970 ميں امريکہ اور سابق سوويت يونين سميت شيطاني اور بڑي طاقتوں کے اکسانے اور ان کي فوجي مدد سے ايران کي سرحدوں پر صدام کي جارحيت اور ايران کے خلاف عراق کي مسلط کردہ جنگ شروع ہوتے ہي دفاع مقدس کے محاذوں پر فوجي لباس ميں دشمن کے خلاف نبرد آزما ہوئے 1981 ميں تہران ميں واقع مسجد ابوذر ميں انقلاب دشمن منافقين کےناکام قاتلانہ حملے ميں شديد زخمي ہوئے صدر مملکت ايران کے دوسرے صدر محمد علي رجائي کي شہادت کے بعد 1981 ميں حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي ايک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے امام خميني رحمت اللہ عليہ کي توثيق سے اسلامي جمہوريہ ايران کے صدر منتخب ہوئے اسي طرح 1985 ميں آپ دوسري بار صدر منتخب ہوئے 1981 ميں ثقافتي انقلابي انجمن کے سربراہ بنے 1987 ميں تشخيص مصلحت نظام کونسل کي سر براہي سنبھالي 1989 ميں آئين پر نظر ثاني کرنے والي کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے امت کي قيادت و ولايت رہبر کبير انقلاب امام خميني رحمت اللہ عليہ کي رحلت کے بعد جون 1989 ميں ماہرين کي کونسل نے اس اعلي عہدے اور عظيم ذمہ داري کے ليے آپ کو منتخب کيا يہ انتخاب انتہائي مبارک اور صحيح تھا چنانچہ امام خميني رحمت اللہ عليہ کي وفات کے بعد آپ نے نہايت مہارت سے ملت ايران بلکہ مسلمانان عالم کي قيادت و راہنمائي کي اور يہ عظيم اور الہي فريضہ آج بھي بخوبي نبھا رہے ہيں۔ تصنيف و تاليف: 1- طرح کلي انديشہ اسلامي در قرآن 2- از ژرفاي نماز 3- گفتاري در باب صبر 4- چہار کتاب اصلي علم رجال 5- ولايت 6- گزارش از سابقہ تاريخي و اوضاع کنوني حوزہ علميہ مشہد 7- زندگينامہ ائمہ تشيع(غير مطبوعہ) 8- پيشواي صادق 9- وحدت و تحزب 10- ہنر از ديدگاہ آيت اللہ خامنہ اي 11- درست فہميدن دين 12- عنصر مبارزہ در زندگي ائمہ عليہم السلام 13- روح توحيد، نفي عبوديت غير خدا 14- ضرورت بازگشت بہ قرآن 15- سيرت امام سجاد عليہ السلام 16- امام رضا عليہ السلام و ولايت عہدي 17- تہاجم فرہنگي(قائد انقلاب کے پيغامات اور تقريروں پر مشتمل کتاب) 18- حديث ولايت(آپ کے پيغامات اور تقريروں پر مشتمل مجموعہ، اس کي اب تک نو جلديں چھپ چکي ہيں) ترجمے: 1- صلح امام حسن [ع] ،تصنيف آل ياسين 2- آيندہ در قلمرو اسلام، تصنيف سيد قطب 3- مسلمانان در نہضت آزادي ہندوستان، تصنيف عبدالرحيم نمري نصري 4- ادعا نامہ عليہ تمدن غرب، تصنيف سيد قطب
|