شناخت اسلامی بیداری اور اسكا دفاع

(1)

خلاصہ :

كیا اسلامی جماعتوں كا وجود معاشرے كے بائكاٹ شدہ عناصر كی شورش كا مظہر ہے كیا یہ شورش ناكام لوگوں كی شورش ہے یا مسلمان گروہوں كی صدای احتجاج ہے جو وہ مغربی تہذیب كے مقابلے میں بلند كررہے ہیں۔

كیا اسلامی جماعتوں كا وجود معاشرے كے بائكاٹ شدہ عناصر كی شورش كا مظہر ہے كیا یہ شورش ناكام لوگوں كی شورش ہے یا مسلمان گروہوں كی صدای احتجاج ہے جو وہ مغربی تہذیب كے مقابلے میں بلند كررہے ہیں۔

آجكل مغربی باشندوں اور مفكرین كے ساتھ اسلامی گروہوں كے بارے میں بات كرنا ایك مشكل امر بن چكا ہے دراصل مسئلہ یہ ہے كہ مغربی معاشرے اسلامی گروہوں كے بارے میں منفی فكر اور شدید حساسیت كا شكار ہو چكے ہیں اس پر مستزاد یہ كہ اسلامی-عربی پروپگینڈا مشینری مسلمانوں كی تصویر مسخ كركے پیش كرتی ہے ان گروھوں كو اسلام پسند كہنا مغرب كی منفی نطر كو آشكار كرتا ہے۔

كیا اسلامی جماعتوں كا وجود معاشرے كے بائكاٹ شدہ عناصر كی شورش كا مظہر ہے كیا یہ شورش ناكام لوگوں كی شورش ہے یا مسلمان گروہوں كی صدای احتجاج ہے جو وہ مغربی تہذیب كے مقابلے میں بلند كررہے ہیں۔

كیا اسلامی جماعتوں كا وجود معاشرے كے بائكاٹ شدہ عناصر كی شورش كا مظہر ہے كیا یہ شورش ناكام لوگوں كی شورش ہے یا مسلمان گروہوں كی صدای احتجاج ہے جو وہ مغربی تہذیب كے مقابلے میں بلند كررہے ہیں۔

آجكل مغربی باشندوں اور مفكرین كے ساتھ اسلامی گروہوں كے بارے میں بات كرنا ایك مشكل امر بن چكا ہے دراصل مسئلہ یہ ہے كہ مغربی معاشرے اسلامی گروہوں كے بارے میں منفی فكر اور شدید حساسیت كا شكار ہو چكے ہیں اس پر مستزاد یہ كہ اسلامی-عربی پروپگینڈا مشینری مسلمانوں كی تصویر مسخ كركے پیش كرتی ہے ان گروھوں كو اسلام پسند كہنا مغرب كی منفی نطر كو آشكار كرتا ہے۔

مغربی ملكوں میں اسلام پسند اس كو كہا جاتا ہے جو صرف مسلمان ہونے اور عبادت كرنے پر اكتفا نہیں كرتا بلكہ اسلامی تعلیمات كے مطابق زندگی گذارنے كی كوشش كرتا ہے دین اسلام كے بارے میں ایسے نظریات دین كو ہمہ گیر شكل دیدیتے ہیں اور اسكی رو سے خالق اور مخلوق كے درمیان ایسا رابطہ پیدا ہو جاتا ہے كہ دین معاشرے پر حاكم ہوجاتاہے مغربی معاشرے كے لۓ دین كے یہ معنی قابل ہضم نہیں ہیں كیونكہ یہ لوگ دین كو صرف كلیسا كی چار دیواری میں محصور دیكھنے كے عادی ہیں اور دین كو خالق و مخلوق كے درمیان ایك خاص رابطہ سے تعبیر كرتے ہیں ان كا ماننا ہے كے روزمرہ كی زندگی میں دین اور سیاست میں جدايئ بدیہی امر ہے اور اسی طرح معاشرے میں نظم و ضبط قائم رہ سكتا ہے ۔

آیۓ دیكھتے ہیں كیا ہمارے مد مقابل كو بھی زندہ رہنے كا حق ہے دوسرے الفاظ میں كیا اسے بھی حق حیات حاصل ہے ؟

ہم سے جب یہ مطالبہ كیا جاتا ہے كہ ہم مختلف ادیان اور تھذیبوں كو قبول كریں تو مغربی باشندوں كو یہ خیال رہنا چاہیۓ كہ انہیں بھی دیگر مذھبوں كے پیروں كے بارے میں صبر و تحمل اور رواداری كا مظاہرہ كرنا چاہیۓ اور دوسرے كی نظر سے دین كے معنی پوری طرح درك كرنے چاہیں شاید دیگر مذھبوں كے پیرووں كے نزدیك دین كا مفھوم مغرب میں رائج مفھوم سے بنیادی اختلاف ركھتا ہو ۔

اس سلسلے میں ایك اور مسئلہ یہ ہے كہ ہمیں یہ دیكھنا چاہیۓ كہ مغربی معاشروں میں دوسروں كے حقوق كو باضابطہ طور پر تسلیم كرنے پر كس حد تك آمادگی پائي جاتی ہے بلكہ یہ بھی دیكھنا ضروری ہے كہ مغرب كس حد تك دیگر تھذیبوں كو قبول كرنے پر تیار ہے جو مغربی اصولوں پر استوار نہیں ہیں اور نہ اس سے مطابقت ركھتی ہیں، اگر ان سوالوں كا جواب مثبت ہو تو بے شك ہر طرح كی بحث اور تبادلہ خیال مفید اور تعمیری ہو گا لیكن اگر جواب منفی ہو تو بحث و مباحثہ كا كوئي فایدہ نہیں ہوگا ۔

مسلمانوں كا خیال ہے كہ اسلام ترقی یافتہ اجتماعی نظام ہے اور وہ اسلام كو انسانی تھذیب كے كمال اور ترقی كے لۓ پیشرفتہ اور مكمل دستورالعمل سمجھتے ہیں مسلمانوں كا عقیدہ ہے كہ اسلام آسمانی دین ہے جسے اللہ نے انسان كی سعادت كے لۓ بھیجا ہے اور زمین كو آباد كرنا اسلام كے پیرووں كی ذمہ داری ہے ۔

مسلمانوں كا عقیدہ ہے كہ دین اسلام نے انسان كی كامیابی اور سعادت كے لۓ خاص اصول و ضوابط معین كۓ ہیں یہی نہیں بلكہ ترقی نۓ افق تلاش كرنے اور جدت و نوآوری پر بھی تاكید كی ہے ۔

مسلمانوں كے نزدیك عبادت دین كا بنیادی ركن ہے جس سے انسان اور خالق كے درمیان قریبی رابطہ برقرار ہو تا ہے اس كی تفصیلات اس طرح بیان كی گئی ہیں كہ ہر مسلمان ان سے آگاہ ہے، ان عقاید كے حامل مسلمانوں كو كسی بھی طرح خاص مستثنی اور الگ گروہ قرار نہیں دیا جاسكتا یہ لوگ نہ شدت پسند ہیں نہ متعصب، مشكل صرف یہ ہے كہ یہ لوگ مغربی نظریہ كے بر خلاف دین كی تصویر پیش كرتے ہیں اسی بناپر مغربی باشندہ مسلمانوں كے بارے میں شك و شبہے میں مبتلا ہو جاتا ہے مغرب میں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے بلكہ زور پكڑ چكا ہے ۔

اس مضمون میں ہم نے اسلام پسندوں كے بارے میں غلط فھمیوں كا ازالہ كرنے كی ہے ہمیں امید ہے كہ ہماری یہ كوشش، حقیقی اسلام جو كہ انسانی بیداری اور ترقی نیز اسكی اجتماعی زندگی كے لۓ مكمل نظام ہے اس میں اور ان شدت پسند گروھوں كے طرز عمل میں جو عام طور سے اپنی حكومتوں كے خلاف سر گرم عمل رہتے ہیں اور دنیا كے مختلف علاقوں میں تخریبی كاروائیاں انجام دیتے ہیں خلط نہ كیا جاے بلكہ ان مكاتب فكر كو الگ الگ ركھا جاے

شدت پسند گروہ بہرحال الگ اور خاص گروہ شمار ہوتا ہے گرچہ ذرایع ابلاغ ان كے اراكین كی شخصیت اور ان سے لاحق خطروں كو اور حكومتیں سیاسی عزم كے فقدان كے باعث یا اخلاقی و مالی بدعنوانیوں نیز اپنے جرایم اور انسانیت سوز اقدامات كی وجھ سے ان كے كاموں كو خوب بڑھا چڑھا كر پیش كرتی ہیں، انتھا پسند گروہوں كو حكومتوں كی آمرانہ كاركردگی كے خلاف عوام كے غم و غصے كا مظہر قراردیا جاتا ہے عام طور سے استبدادی حكومتیں اقتدار پر پوری طرح قبضہ جمانے كے بعد اپنے اقتدار كو محفوظ ركھنے كے لۓ عوام سے یہ كہتی رہتی ہیں كہ ان كی سرنگونی كی صورت میں انتھا پسند گروہ اقتدار حاصل كرلینگے اور افراتفری پھیل جایگی ۔

ان جماعتوں كی وجھ سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے كہ دین اسلام سے آگہی اور امت كی بیداری ان جماعتوں كے وجود میں آنے كا سبب ہے اور معاشرے كی اصلاح مفاہمت پسند اور پرامن اقدامات سے كی جانی چاہۓ۔

یہ طرز تفكر مایوس ہوكر حقائق كو توڑ مڑوڑ كر پیش كرنے كے مترادف ہے گرچہ یہ نظریہ عرب ملكوں كی حكومتوں كی مذمت كرتا ہے تاہم اگر عرب حكومتوں كی كاركردگی كی بنا پر انتھا پسند جماعتیں وجود میں آرہی ہیں تو ہمیں یہ تسلیم كرنا ہوگا كہ عرب حكومتوں میں خرابی ہے جن كی اصلاح ضروری ہے۔

ہمیں اس سوال كا بھی جواب تلاش كرنا ہوگا كہ كیا اسلام پسندوں كاوجود معاشرے كے محروم اور پسماندہ طبقے كی صدای احتجاج ہے ؟

یہاں ہم عام حكم لگانے كے بارے ضرور خبر دار كرینگے بلكہ اس امر كی طرف بھی توجھ مبذول ركھی جاۓ كہ ہمیں اس معاشرے كی صورتحال اور خصوصیتوں پر نظر ركہنی چاہۓ جس كے بارے میں گفتگو كر رہے ہیں، اس كے علاوہ یہ بھی خیال رہے كہ انتھا پسند گروھوں میں اتحاد نہیں ہے بلكہ شدید اختلافات پاۓ جاتے ہیں۔

اسلامی امت كی بیداری كے قایل گروھوں اور عوام كی ناراضگی سے جنم لینے والے انتھا پسند گروھوں كا جائزہ لیتے وقت ہمیں جس اہم نكتے پر توجھ ركھنا چاہیۓ وہ ان دو نظریات میں شدید اختلاف ہے یہ بات تو آپ كے مد نظر ہے كہ اسلامی بیداری كا قایل گروہ جو متوازن اورمتعادل نظریات كا حامل ہے وہ اصل گروہ ہے اور انتھا پسند جماعتیں فرعی و استثنايئ گروہ میں شمار ہوتی ہیں بڑے افسوس كی بات ہے كہ مغربی دانشور اور مفكرین ذرایع ابلاغ كے زہریلے پروپگیڈوں اور سیاسی محركات كے زیر اثر اس فرق كو سمجھنے سے قاصر ہیں یہ لوگ اسلام پسندی كو اشتعال انگیزی اور انتھا پسندی كے برابر سمجھ بیٹھے ہیں ان لوگوں نے سرے سے اس حقیقت كو نظر انداز كردیا ہے كہ اسلامی تہذیب و تمدن میں ایسی كشش اور جذابیت ہے جو لوگوں كو اپنی طرف كھینچتی ہے اور انہیں اسلام قبول كرنے پر مائل كرتی ہے۔

انیس سو اناسی میں اسلامی انقلاب كی كامیابی سے پہلے یورپ اور امریكہ كی آبادی كا بہت بڑا حصہ اسلام و مسلمین سے ناواقف تھا اسی طرح مشرق بعید جیسے جاپان میں انیس سو تہترتك جب تیل كی قیمتوں میں اضافہ ہوا اسلام كے بارے میں معلومات نہ ہونے كے برابر تھیں ۔

اسلامی بیداری كے لۓ سب سے پہلی تحریك مصر میں بیسویں صدی كی ابتدا میں شروع ہویئ اس تحریك كے بانی جمال الدین اغفانی (اسدآبادی)اور محمد عبدہ تھے اسكے بعد رشیدرضا نے اس كی باگ ڈور سنبھالی ان انفرادی كوششوں كا نتیجہ انیس سو اٹھایس میں اخوان المسلمین كی صورت میں نكلا اور پہلی مرتبہ ایك گروہ نے اسلامی بیداری كے لۓ كام كرنا شروع كیا اخوان المسلمین كی یا كوشش تھی كہ عثمانی خلافت كا شیرازہ بكھرنے سے جو خلاءپیدا ہوگیا تھا اسے پر كیا جاے عثمانی خلافت انیس سو چوبیس میں ختم ہوگیئ تھی ۔

+ نوشته شده در  2012/2/29ساعت 11:17  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  |