بسمہ تعالی

خصائص امیر مومنین(علیہ السلام)

نام ،لقب اور کنیت

                حضرت امیر المومنینؑ کے والد، حضرت ابو طالبؑ نے اپنے جد ’’قصی بن کلاب’’ کے نام پر آپ کا نام ‘‘زید’’ رکھا اور جناب فاطمہ بنت اسدؑ نے انپے والدِ بزرگوار کے نام پر ‘‘حیدرؑ’’ نام تجویز کیا، کیونکہ اسد اور حیدر دونوں کا معنی ‘‘شیر’’ ہے۔ چنانچہ آپؑ نے جنگِ خیبر میں مرحب کے رَجز کے جواب میں فرمایا: ‘‘میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام ‘‘حیدر’’ رکھا۔’’

                آپؑ کے القاب آپؑ کے گوناگوں اوصاف کے لحاظ سے متعدد ہیں، جن میں سے مرتضیٰ، وصی اور امیرالمومنین زیادہ مشہور و معروف ہیں۔

                جبکہ مشہور و معروف کنیت ‘‘ابو الحسن’’ اور ‘‘ابو تراب’’ ہے۔ پہلی کنیت آپؑ کے بڑے بیٹے حسنؑ کے نام پر ہے اور دوسری کنیت رسول اللہؐ نے تجویز فرمائی تھی۔ چنانچہ سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ غزوہ عشیرہ کے موقع پر حضرت علیؑ اور عمار یاسر، بنی مدلج کے ایک چشمہ کی طرف نکل گئے اور درختوں کے سایہ میں ایک نرم و ہموار زمین پر لیٹ گئے۔ ابھی لیٹے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ رسول اکرمؐ بھی ادھر آ گئے اور علیؑ  کا بدن خاک میں اَٹا ہوا دیکھ کر فرمایا:

                ‘‘اے ابو تراب! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟’’

                باوجود اس کے کہ علی بن ابیطالبؑ کے دشمن ان سے حسادت کی وجہ سے اور ان کے دوست خوف کی وجہ سے طولِ تاریخ میں ان کے فضائل و مناقب چھپاتے رہے ، لیکن شاید ہی کوئی حدیث کی کتاب ایسی ملے، جس کے صفحات آپؑ کے فضائل و مناقب سے مزّین اور آراستہ نہ ہوں، نہ فقط شیعوں کی حدیثی کتب، بلکہ اہلِ سنت کی صحاح ستّہ بھی آپؑ کی عظمت و بزرگی کے اس بحرِ بیکراں سے سرشار ہیں۔ ہم یہاں امام علیؑ  کی بے شمار خصلتوں میں سے فقط چند مخصوص خصلتیں ہی بیان کرسکیں گے:

حضرت علیؑ کی ولادت با سعادت

                حضرت علیؑ خداوند متعال کے پاک و پاکیزہ اور متبرّک و باعظمت گھر، خانہ کعبہ میں بروز جمعہ، تیرہ رجب المرجب، سن تیس عام الفیل دنیا میں تشریف لائے اور یہ شرف نہ اس سے پہلے کسی کو ملا تھا اور نہ آپؑ کے بعد کسی کو حاصل ہو گا۔ اسے تمام محدّثین و مؤرّخین نے قبول کیاہے۔

                چنانچہ اہلِ سنت کے معروف محدّث حاکمِ نیشاپوری لکھتے ہیں:

                ‘‘اخبار متوار سے یہ بات ثابت ہے کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب (کَرَّمَ اللہُ وَجْھَہٗ) خانہ کعبہ کے اندر جناب فاطمہ بنت اسدؑ کے بطن سے متولد ہوئے۔’’ ١

                اسی طرح شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی بھی اس کی تصریح کرتے ہوئے قمطراز ہیں:

                ‘‘متواتر روایات سے ثابت ہے کہ امیرالمومنین علیؑ روز جمعہ، تیرہ رجب تیس عام الفیل کو کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسدؑکے بطن سے پیدا ہوئے اور آپؑ کے علاوہ، نہ آپؑ سے پہلے اور نہ آپؑ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا۔’’ ٢

                حافظ گنجی شافعی اپنی کتاب میں حاکم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

                ‘‘امیرالمو منین حضرت علی بن ابی طالبؑ  مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر روز جمعہ ١٣ رجب، ٣٠ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بیت اللہ میں نہیں پیدا ہوا ۔ نہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد۔ یہ منزلت و شرف فقط حضرت علیؑ کو حاصل ہے ۔’’ ٣

                علامہ امینیؒ نے اپنی گراں قدر کتاب ‘‘الغدیر’’ جلد ٦ صفحہ٢١  کے بعد حضرت علی ابن ابی طالبؑ  کی خانہ کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو ،اہلِ سنت کی بیس اور شیعوں کی پچاس سے زیادہ کتابوں سے نقل کیا ہے ۔

علیؑ رسول خدا ؐ کے تربیت یافتہ

                جس طرح خداوند متعال نے اپنے حبیبؐ  کی تربیت کی، اسی طرح رسول خداؐ نے حضرت علیؑ  کی تربیت فرمائی۔ آپؑ ہمیشہ آنحضرتؐ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے، یوں آپؐ نے حضرت علیؑ کی تربیت اپنے انداز سے فرمائی۔ جس کے بارے میں خود علیؑ فرماتے ہیں: ‘‘خدا وند عالم نے ایک عظیم فرشتے کو اپنے حبیبؐ کی تربیت کیلئے مامور کیا تھا اور آپؐ ہر روز اپنے اخلاقِ حسنہ میں سے کچھ مجھے تعلیم دیتے تھے۔’’

                یہی وجہ ہے کہ علیؑ کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں، جو تمام صفات و کمالات میں رسول اکرمؐ کیساتھ مشابہ ہو۔ کیونکہ حضورؐ نے علیؑ کی تربیت بالکل اپنے انداز سے کی تھی اور ان کو اپنے بعد جانشینی کے لئے مکمل طور پر تیار کیا تھا، علیؑ اس تربیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ‘‘میں ہمیشہ آپؐ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔’’ ٤

اگر ان میں سے کوئی ایک میرے لیے ہوتی۔۔۔

                عامر بن سعد بن ابی وقاص نقل کرتا ہے: معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کہا: تم کیوں ابوتراب (علیؑ کی کنیت) پر سبّ و شتم نہیں کرتے؟

                تو اُس نے جواب دیا: تین چیزوں کی وجہ سے، جو رسول خداؐ نے اُن (علیؑ) کے لیے فرمائی ہیں، میں اُن پر سبّ وشتم نہیں کروں گا کہ اگر اُن میں سے کوئی ایک بھی میرے لیے ہوتی تو میرے لیے سرخ بالوں والے اُونٹوں سے بہتر ہوتا۔

                پیغمبر خداؐ نے جب کسی غزوہ پز تشریف لے جاتے وقت، اُن (علیؑ) کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا، تو علیؑ  نے عرض کیا: ‘‘اے رسول خداؐ! کیا آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں کے درمیان چھوڑ رہے ہیں؟’’

                تو پیغمبر خداؐ نے اُن سے فرمایا: ‘‘اے علیؑ! کیا تم خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے ہارونؑ کی موسیٰؑ  سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔’’

                اور میں نے جنگِ خیبر کے موقع پر پیغمبر خداؐ  کو کہتے سنا کہ فرما رہے تھے: ‘‘کل میں پرچمِ اسلام اُس شخص کو دوں گا جو خدا اور اُس کے رسولؐ  کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور اُس کا رسولؐ  بھی اُس کو دوست رکھتے ہوں گے۔’’

                پس ہم نے بھی اپنی اپنی گردنیں بلند کیں کہ شاید آنحضرتؐ کی نظر ہم پر پڑ جائے، لیکن انہوں نے فرمایا: ‘‘علیؑ   کو میرے پاس بلاؤ! علیؑ شریف لائے درحالانکہ وہ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے، پس رسول خداؐ نے اپنا لعابِ دہن اُن کی آنکھوں پر ملا اور پرچمِ اسلام اُن کو دے دیا۔

                اور جب آیۂ تطہیر، ٥ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی تو آپؐ نے علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ  کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: ‘‘خدایا! یہ ہیں میرے اہل بیت’’ ٦

 

١۔ المستدرک ،ج٣،ص٣٨٣

٢۔ ازالۃ الخفاء، ص٢٥١

٣۔ کفایۃ الطالب، ص٢٦٠

٤۔ نہج البلاغۃ، الامام علیؑ، ج٢، ص١٥٧

٥۔ سورۂ احزاب، آیت٣٣

٦۔ خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ، ابو عبدالرحمان احمد بن شعیب النسائی، تحقیق: سید جعفر حسینی، ص٢٨٠

+ نوشته شده در  2012/7/13ساعت 13:54  توسط ALIWAHEED SAJDI halepoto  |