بسمہ تعالی کتابِ خدا تحریف سے پاک ھے مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی تحریفِ قرآن کے موضوع پر گفتگو سے پہلے، تحریف کے لغوی اور اصطلاحی معانی کی وضاحت ضروری ہے: ‘‘تحریف’’ لغت میں کسی چیز کو اس کے محل و مقام سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کو کہتے ہیں، جیسے کہ خداوند متعال علمائے یہود کے بارے میں فرماتا ہے: ‘‘ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوا یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ ’’ ‘‘یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کلام کو اس کے موقعوں سے پھیرتے رہتے ہیں۔’’ لیکن اصطلاح میں ‘‘تحریف’’ کے تین اہم مصادیق ہیں: پہلا: کلمات کو اپنے مقام پر رکھتے ہوئے، اس کے وہ معنی اور مفہوم لیے جائیں جو متکلم، یعنی خداوند عالم کی مراد نہ ہوں، بلکہ غرضِ خدا کچھ اور ہو اور معنی اور مفہوم اس سے مختلف اخذ کیا جائے۔ علمِ تفسیر میں اسے تفسیر بالرائے سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کی آئمہ اطہارؑ نے سخت مذمت فرمائی ہے اور آئمہؑ سے مروی احادیث میں اپنی رائے سے تفسیر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم بتایا گیا ہے۔ دوسرا: ایسے کلمات جو آیات قرآنی نہ ہوں، ان کو آیاتِ قرآنی کی حیثیت سے قرآن میں داخل کیا جائے، لیکن تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن اس قسم کی تحریف سے قطعاً محفوظ ہے، کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ قرآن میں کوئی ایسا کلمہ ہے کہ جو قرآنی نہیں ہے۔ تیسرا: یہ کہ قرآن سے بہت سے کلمات یا آیات یا کچھ سورہ حذف کر دیئے گئے ہوں یا موجودہ قرآن سے بہت سی آیات ضائع ہو چکی ہوں، اس قسم کی تحریف میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ لیکن فریقین کے مشہور محققین اور جدید علماء بہت سے دلائل کی روشنی میں اس قسم کی تحریف کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اس کی نفی میں قرآنی، نقلی اور محکم عقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم چند دلائل بطور اختصار پیش کرتے ہیں: تحریفِ قرآن کی نفی میں قرآنی دلائل: ١۔ خداوند عالم میں ارشاد فرماتا ہے کہ‘‘ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ’’ ۱ ‘‘یہ ذکر ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔’’ اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں ذکر سے مراد، قرآنِ کریم ہے، کیسے ممکن ہے کہ جس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لیا ہو، اُس میں کمی بیشی کی جا سکے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی قرآن میں تحریف کو صحیح مانتا ہے تو پھر یا تو وہ اس قرآنی دعوے پر ایمان نہیں رکھتا یا پھر وہ خداوند عالم کو قرآن کی حفاظت سے معذور اور قاصر سمجھتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو خدانخواستہ قرآنی دعویٰ غلط ہو سکتا ہے اور نہ خداوند عالم، جو صاحب قدرت و اختیار ہے، معاذ اللہ قرآن کی حفاظت سے معذور و مجبور ہے۔ ٢۔ سورۂ فصلت میں ارشاد ہوتا ہے : ‘‘ وَاِنَّہُ لَکِتَاب عَزِیْز * لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ’’ ٢ ‘‘یقینا یہ وہ غالب کتاب ہے کہ باطل نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ حکیم و حمید کی نازل کردہ کتاب ہے۔’’ اگر قرآن کو تحریف شدہ مان لیا جائے تو پھر قرآنی احکام قابل عمل نہیں رہتے، گویا دوسرے لفظوں میں قرآن میں تحریف کو ماننا، خود قرآن کو باطل قرار دینے کے مترادف ہے۔ تحریفِ قرآن کی نفی میں نقلی و عقلی دلائل: ١۔پیغمبراکرمؐ نے متعدد بار فرمایا: ‘‘میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے، (میرے بعد) ہرگز گمراہ نہ ہوں گے: ایک کتابِ خدا (قرآن) اور دوسری میری عترت، میرے اہل بیتؑ اور یہ دونوں (قیامت کے دن) حوض کوثر پر اکٹھے میرے پاس وارد ہوں گے۔’’ ٣ پیغمبراکرمؐ نے اس حدیث میں اُمت کو قرآن سے متمسک رہنے کا حکم دیا ہے، قرآن میں اگر تحریف ہو جائے تو پھر قرآن قابلِ تمسک نہیں رہتا، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ قرآن تحریف سے پاک و مبرّا ہے۔ ٢۔ پیغمبراکرمؐ اور تمام آئمہ اطہارؑ نے اپنی احادیث کی صحت کو پرکھنے کی کسوٹی قرآنِ کریم کو قرار دیا ہے، اگر قرآن میں تحریف کے دعویٰ کو صحیح مان لیا جائے تو قرآن کسی حدیث کے مضمون کی صحت کو پھرکنے کے لیے کسوٹی قرار نہیں پاسکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں حدیث آیات قرآنی کے مطابق درست ہے یا غلط۔ اس لیے کہ اگر قرآن میں تحریف کا ہونا مان لیا جائے تو یہ احتمال باقی رہنے کا ہمیشہ امکان ہے کہ جس کلمہ، آیت یا سورہ کو حدیث پھرکنے کی کسوٹی قرار دیا گیا ہے، کہیں وہی کلمہ، آیت یا سورہ تحریف شدہ تو نہیں ہے۔ ٣۔ شیعہ فقہاء کے نزدیک فریضہ نماز میں سورۂ حمد کے بعد، ایک کامل سورہ پڑھنا واجب ہے، اگر قرآن میں تحریف کا ہونا مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نماز میں کبھی بھی سورۂ حمد کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ جو بھی سورہ پڑھا جائے گا اس میں نقص کا احتمال باقی رہے گا، لہٰذا نماز بھی باطل ہوگی۔ ٤۔ صدر اسلام سے اب تک مسلمانانِ عالم آیات و کلمات قرآن پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہزاروں حافظِ قرآن ہر دور میں مسلمانوں کے درمیان رہے ہیں اس کے علاوہ ایسے باکمال افراد بھی ہر دور میں موجود رہے ہیں، جو قرآن کے اعراب اور نقطوں تک سے واقفیت رکھتے ہیں، مسلمانوں کی قرآن سے اس قدر دلچسپی خود تحریفِ قرآن سے مانع ہے۔ ١۔ سورۂ حجر، آیت٩ ٢۔ سورہ فصلت، آیت ٤١-٤٢ ۳۔ وسائل الشیعہ، حر عاملی ؒ، ج٢٧، ص٣٤ |